May 18, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 257

اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

اﷲ ایمان والوں کا رکھوالا ہے، وہ انہیں اندھیریوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے، اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے، ان کے رکھوالے وہ شیطان ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھیریوں میں لے جاتے ہیں ۔ وہ سب آگ کے باسی ہیں ۔ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے

 آیت257:    اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا :   «اللہ ولی ہے اہل ِایمان کا»

            ایمان در حقیقت اللہ اور بندے کے درمیان ایک دوستی کا رشتہ قائم کرتا ہے۔  یہ ولایت ِ باہمی یعنی دو طرفہ دوستی ہے۔  ایک طرف مطلوب یہ ہے کہ بندہ اللہ کا ولی بن جائے :   اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَـآءَ اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ .   (سوره یونس)  «یاد رکھو‘ اللہ کے دوستوں کے لیے نہ تو کسی طرح کا خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔  یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور انہوں نے تقویٰ اختیار کیا»۔  دوسری طرف اللہ بھی اہل ایمان کا ولی ہے ‘ یعنی دوست ہے‘ پشت پناہ ہے‘ مددگار ہے‘کارساز ہے۔

             یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ :   «وہ انہیں نکالتا رہتا ہے تاریکیوں سے نور کی طرف۔ »

            آپ نوٹ کریں گے کہ قرآن میں «نُور» ہمیشہ واحد آتا ہے۔  «اَنوار» کا لفظ قرآن میں نہیں آیا‘ اس لیے کہ نور ایک حقیقت واحدہ ہے۔  لیکن «ظُلُمٰت» ہمیشہ جمع میں آتا ہے‘ اس لیے کہ تاریکی کے  shades مختلف ہیں۔  ایک بہت گہری تاریکی ہے ‘ ایک ذرا اُس سے کم ہے‘ پھر اُس سے کمتر ہے۔  کفر‘ شرک‘ الحاد‘ مادہ پرستی‘ لاادریت (Agnosticism) وغیرہ مختلف قسم کی تاریکیاں ہیں۔  تو جتنے بھی غلط فلسفے ہیں ‘جتنے بھی غلط نظریات ہیں‘ جتنی بھی عمل کی غلط راہیں ہیں‘ ان سب کے اندھیروں سے نکال کر اللہ اہلِ ایمان کو ایمان کی روشنی کے اندر لاتا رہتا ہے۔

             وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْلِیٰٓــئُہُمُ الطَّاغُوْتُ :   «اور (ان کے بر عکس) جنہوں نے کفر کیا‘ اُن کے اولیاء (پشت پناہ‘ ساتھی اور مددگار) طاغوت ہیں۔ »

             یُخْرِجُوْنَہُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ :   «وہ ان کو روشنی سے نکال کر تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ »

            اگر کہیں نور کی تھوڑی بہت رمق انہیں ملی بھی تھی تو اس سے انہیں محروم کر کے انہیں تاریکیوں کی طرف دھکیلتے رہتے ہیں۔  

             اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج  ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ :   «یہی لوگ ہیں آگ والے‘ یہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ » 

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْ عِبَادِکَ الْمُؤْمِنِیْنَ‘ اَللّٰھُمَّ اَخْرِجْنَا مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ۔  آمین یا ربّ العالمین!

            اس کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت عزیر کی زندگی کے کچھ واقعات بیان کیے جا رہے ہیں۔

UP
X
<>