May 18, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 258

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

کیا تم نے اس شخص (کے حال) پر غور کیا جس کو اﷲ نے سلطنت کیا دے دی تھی کہ وہ اپنے پروردگار (کے وجود ہی) کے بارے میں ابراہیم سے بحث کرنے لگا؟ جب ابراہیم نے کہا کہ : ’’ میرا پروردگار وہ ہے جو زندگی بھی دیتا ہے اور موت بھی ۔‘‘ تو وہ کہنے لگا کہ : ’’ میں بھی زندگی دیتا ہوں اور موت دیتا ہوں ۔ ‘‘ ابراہیم نے کہا : ’’ اچھا ! اﷲ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تم ذرا اسے مغرب سے تو نکال کر لاؤ۔ ‘‘ اس پر وہ کافر مبہوت ہو کر رہ گیا ۔ اور اﷲ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا

 آیت 258:    اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰھيمَ فِیْ رَبِّہ اَنْ اٰتٰٹہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ :   «کیا تم نے اُس شخص کو نہیں دیکھا جس نے حجت ّبازی کی تھی ابراہیم   سے اس وجہ سے کہ اللہ نے اسے بادشاہی دی ہوئی تھی ۔»

            یہ بابل (عراق) کا بادشاہ نمرود تھا۔  یہ ذہن میں رکھیے کہ نمرود اصل میں لقب تھا‘ کسی کا نام نہیں تھا۔  جیسے فرعون (ج فراعنہ) مصر کے بادشاہوں کا لقب ہوتا تھا اسی طرح نمرود (ج نماردہ) بابل (عراق) کے بادشاہوں کا لقب تھا۔  حضرت ابراہیم  کی پیدائش «اُر» میں ہوئی تھی جو بابل (Babylonia) کا ایک شہر تھا اور وہاں نمرود کی بادشاہت تھی۔  جیسے فرعون نے مصر میں اپنی بادشاہت اور اپنی خدائی کا دعویٰ کیا تھا اسی طرح کا دعوی نمرود کا بھی تھا۔  فرعون اور نمرود کا خدائی کا دعویٰ در حقیقت سیاسی بادشاہت اور اقتدار کا دعویٰ تھا کہ اختیارِ مطلق ہمارے ہاتھ میں ہے‘ ہم جس چیز کو چاہیں غلط قرار دے دیں اور جس چیز کو چاہیں صحیح قرار دے دیں۔  یہی اصل میں خدائی اختیار ہے جو انہوں نے ہاتھ میں لے لیا تھا۔  تحلیل و تحریم اللہ تعالیٰ کا حق ہے‘ کسی شے کو حلال کرنے یا کسی شے کو حرام کرنے کا اختیارِ واحد اللہ کے ہاتھ میں ہے۔  اور جس شخص نے بھی قانون سازی کا یہ اختیار اللہ کے قانون سے آزاد ہو کر اپنے ہاتھ میں لے لیا وہی طاغوت ہے‘ وہی شیطان ہے‘ وہی نمرود ہے‘ وہی فرعون ہے ۔  ورنہ فرعون اور نمرود نے یہ دعویٰ تو نہیں کیا تھا کہ یہ دنیا ہم نے پیدا کی ہے۔

              اِذْ قَالَ اِبْراهِيْمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْی وَیُمِیْتُ  قَالَ اَنَا اُحْی وَاُمِیْتُ :   «جب ابراہیم   نے کہا کہ میرا رب تو وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تو اُس نے کہا کہ میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں۔ »

            نمرود نے جیل سے سزائے موت کے دو قیدی منگوائے ‘ ان میں سے ایک کی گردن وہیں اڑا دی اور دوسرے کی سزائے موت معاف کرتے ہوئے اسے رہا کر دیا اور حضرت ابراہیم سے کہنے لگا کہ دیکھو‘ میں نے جس کو چاہا زندہ رکھا اور جس کو چاہا مار دیا۔  حضرت ابراہیم   نے دیکھا کہ یہ کٹ حجتی پر اترا ہوا ہے‘ اسے ایسا جواب دیا جانا چاہیے جو اُس کو چپ کرا دے۔  

             قَالَ اِبْرٰهِيْمُ فَاِنَّ اللّٰہَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ :   «ابراہیم   نے کہا کہ اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے (اگر تو خدائی کا مدعی ہے ) تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا»

             فَـبُہِتَ الَّذِیْ کَفَرَ :   «تو مبہوت ہو کر رہ گیا وہ کافر۔ »

            اب اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔  وہ یہ بات سن کر بھونچکا اور ششدر ہو کر رہ گیا۔

             وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ :  «اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ »

            اللہ نے اسے راہ یاب نہیں کیا‘ لیکن وہ چپ ہو گیا‘ اُس سے حضرت ابراہیم کی بات کا کوئی جواب نہیں بن پڑا۔  اس کے بعد اس نے بت ُکدے کے پجاریوں کے مشورے سے یہ فیصلہ کیا کہ ابراہیم   کو آگ میں جھونک دیا جائے۔  

UP
X
<>