May 18, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 259

أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّى يُحْيِي هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانْظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ وَانْظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

یا (تم نے) اس جیسے شخص (کے واقعے) پر (غور کیا) جس کا ایک بستی پر ایسے وقت گذر ہو ا جب وہ چھتوں کے بل گری پڑی تھی ؟ اس نے کہا کہ : ’’ اﷲ اس بستی کو اس کے مرنے کے بعد کیسے زندہ کرے گا ؟ ‘‘ پھر اﷲ نے اس شخص کو سو سال تک کیلئے موت دی، اور اس کے بعد زندہ کر دیا ۔ (اور پھر) پوچھا کہ تم کتنے عرصے تک (اس حالت میں ) رہے ہو ؟ اس نے کہا : ’’ ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ ! ‘‘ اﷲ نے کہا : ’’ نہیں ! بلکہ تم سو سال اسی طرح رہے ہو ۔ اب اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ وہ ذرا نہیں سڑیں ۔ اور (دوسری طرف) اپنے گدھے کو دیکھو (کہ گل سڑ کر اس کا کیا حال ہو گیا ہے) اور یہ ہم نے اس لئے کیاتا کہ ہم تمہیں لوگوں کیلئے (اپنی قدرت کا) ایک نشان بنا دیں ۔ اور (اب اپنے گدھے کی) ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم کس طرح انہیں اٹھاتے ہیں، پھر ان کو گوشت کا لباس پہناتے ہیں ! ‘‘ چنانچہ جب حقیقت کھل کر اس کے سامنے آگئی تو وہ بول اٹھا کہ ’’ مجھے یقین ہے اﷲ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔ ‘‘

 آیت 259:     اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَّہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا :   «یا پھر جیسے کہ وہ شخص (اس کا واقعہ ذرا یاد کرو) جس کا گزر ہوا ایک بستی پر اور وہ اوندھی پڑی ہوئی تھی اپنی چھتوں پر۔ »

            تفاسیر میں اگرچہ اس واقعے کی مختلف تعبیرات ملتی ہیں‘ لیکن یہ در اصل حضرت عزیر کا واقعہ ہے جن کا گزر یروشلم شہر پر ہوا تھا جو تباہ و برباد ہو چکا تھا۔  بابل (عراق) کے بادشاہ بخت نصر (Nebuchadnezzar) نے (586 ق م) میں فلسطین پر حملہ کیا تھا اور یروشلم کو تاخت و تاراج کر دیا تھا۔  اِس وقت بھی عراق اور اسرائیل کی آپس میں بد ترین دشمنی ہے۔  یہ دشمنی در حقیقت ڈھائی ہزار سال پرانی ہے۔  بخت نصر کے حملے کے وقت یروشلم بارہ لاکھ کی آبادی کا شہر تھا۔  بخت نصر نے چھ لاکھ نفوس کو قتل کر دیا اورباقی چھ لاکھ کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتا ہوا قیدی بنا کر لے گیا۔  یہ لوگ ڈیڑھ سو برس تک اسیری (captivity) میں رہے ہیں اور یروشلم اُجڑا رہا ہے۔  وہاں کوئی متنفس ّزندہ نہیں بچا تھا۔  بخت نصر نے یروشلم کو اس طرح تباہ و برباد کیا تھا کہ کوئی دو اینٹیں سلامت نہیں چھوڑیں۔  اُس نے ہیکل سلیمانی کو بھی مکمل طور پر شہید کر دیا تھا۔  یہودیوں کے مطابق ہیکل کے ایک تہہ خانے میں «تابوتِ سکینہ» بھی تھا اور وہاں ان کے ربائی بھی موجود تھے۔  ہیکل مسمار ہونے پر وہیں ان کی موت واقع ہوئی اور تابوتِ سکینہ بھی وہیں دفن ہو گیا۔  تو جس زمانے میں یہ بستی اُجڑی ہوئی تھی‘ حضرت عزیر  کا اُدھر سے گزر ہوا۔  انہوں نے دیکھا کہ وہاں کوئی متنفس ّزندہ نہیں اور کوئی عمارت سلامت نہیں۔

              قَالَ اَنّٰی یُحْی ہٰذِہِ اللّٰـہُ بَعْدَ مَوْتِہَا :   «اُس نے کہا کہ اللہ اس بستی کو‘ اس کے اس طرح مردہ اور برباد ہو جانے کے بعد کس طرح زندہ کرے گا؟»

            ان کا یہ سوال اظہارِ حیرت کی نوعیت کا تھا کہ اس طرح اُجڑی ہوئی بستی میں دوبارہ کیسے احیا ہو سکتا ہے؟ دوبارہ کیسے اس میں لوگ آ کر آباد ہو سکتے ہیں؟ اتنی بڑی تباہی و بربادی کہ کوئی متنفس باقی نہیں‘ کوئی دو اینٹیں سلامت نہیں!

             فَـاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہ :   «تو اللہ نے اس پر موت وارد کر دی سو برس کے لیے اور پھر اس کو اٹھایا۔ »

             قَالَ کَمْ لَبِثْتَ :   «پوچھا کتنا عرصہ یہاں رہے ہو؟»

             قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ :   «کہنے لگا ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ۔ »

            ان کو ایسا محسوس ہوا جیسے تھوڑی دیر کے لیے سویا تھا‘ شاید ایک دن یا دن کا کچھ حصہ میں یہاں رہا ہوں۔

             قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ :   «(اللہ تعالیٰ نے) فرمایا بلکہ تم پورے سو سال اس حال میں رہے ہو»

             فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ :   «تو ذرا تم اپنے کھانے اور اپنے مشروب کو (جو سفر میں تمہارے ساتھ تھا) دیکھو‘ ان کے اندر کوئی بساند پیدا نہیں ہوئی۔ »

            ان میں سے کوئی شے گلی سڑی نہیں‘ ان کے اندر کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی۔

             وَانْظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ :   «اور (دوسری طرف ) اپنے گدھے کو دیکھو (ہم اس کو کس طرح زندہ کرتے ہیں) »

            حضرت عزیر کی سواری کا گدھا اس عرصے میں بالکل ختم ہو چکا تھا‘ اس کی بوسیدہ ہڈیاں ہی باقی رہ گئی تھیں‘ گوشت گل سڑ چکا تھا۔  

             وَلِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ :  «اور تاکہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں»

یعنی اے عزیر! ہم نے تو خود تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنانا ہے‘ اس لیے ہم تمہیں اپنی یہ نشانی دکھا رہے ہیں تاکہ تمہیں دوبارہ اٹھائے جانے پر یقین ِکامل حاصل ہو۔

             وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُہَا :   «اور اب ان ہڈیوں کو دیکھو‘ کس طرح ہم انہیں اٹھاتے ہیں»

             ثُمَّ نَـکْسُوْہَا لَحْمًا :   «پھر (تمہاری نگاہوں کے سامنے) ان کو گوشت پہناتے ہیں۔ »

            چنانچہ حضرت عزیر  کے دیکھتے ہی دیکھتے ان کے گدھے کی ہڈیاں جمع ہو کر اس کا ڈھانچہ کھڑا ہو گیا اور پھر اس پر گوشت بھی چڑھ گیا۔

             فَلَمَّا تَـبَـیَّنَ لَہ:   «پس جب اس کے سامنے یہ بات واضح ہو گئی»

            حضرت عزیر نے بچشم ِسر ایک ُمردہ جسم کے زندہ ہونے کا مشاہدہ کر لیا۔

             قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ :   «وہ پکار اٹھا کہ میں نے پوری طرح جان لیا (اور مجھے یقین کامل حاصل ہو گیا) کہ اللہ ہر شے پر قادر ہے۔ »

            انہیں یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ اس اُجڑی ہوئی بستی کو بھی دوبارہ آباد کر سکتا ہے‘ اس کی آبادی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔

            حضرت عزیر کو بنی اسرائیل کی نشاۃِٔثانیہ (Renaissance) کے نقیب کی حیثیت حاصل ہے۔  بابل کی اسارت کے دوران یہود اخلاقی زوال کا شکار تھے۔  جب حضرت عزیر کو اللہ تعالیٰ نے متذکرہ بالا مشاہدات کرا دیے تو آپ  نے وہاں جا کر یہود کو دین کی تعلیم دی اور ان کے اندر روحِ دین کو بیدار کیا۔  اس کے بعد ایران کے بادشاہ کیخورس(Cyrus) نے جب بابل (عراق) پر حملہ کیا تو یہودیوں کو اسارت (captivity) سے نجات دی اور انہیں دوبارہ فلسطین میں جا کر آباد ہونے کی اجازت دے دی۔  اس طرح یروشلم کی تعمیر نو ہوئی اور یہ بستی 136 سال بعد دوبارہ آباد ہوئی۔  پھر یہودیوں نے وہاں ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کیا جس کو وہ معبد ثانی  (Second Temple) کہتے ہیں۔  پھر یہ ہیکل 70 عیسوی میں رومن جنرل ٹائٹس کے ہاتھوں تباہ ہو گیا اور اب تک دوبارہ تعمیر نہیں ہو سکا۔  دو ہزار برس ہونے کو آئے ہیں کہ ان کا کعبہ زمین بوس ہے ۔  یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر کے یہودیوں کے دلوں میں آگ سی لگی ہوئی ہے اور وہ مسجد اقصی کو مسمار کر کے وہاں ہیکل سلیمانی (معبد ثالث) تعمیر کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔  اس کے نقشے بھی تیار ہو چکے ہیں۔  بس کسی دن کوئی ایک دھماکہ ہوگا اور خبر آ جائے گی کہ کسی جنونی (fanatic) نے وہاں جا کر بم رکھ دیا تھا‘ جس کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ شہید ہو گئی ہے۔  آپ کے علم میں ہو گا کہ ایک جنونی یہودی ڈاکٹر نے مسجد الخلیل میں 70 مسلمانوں کو شہید کر کے خود بھی خود کشی کر لی تھی۔  اسی طرح کوئی جنونی یہودی مسجد اقصی میں بم نصب کر کے اس کو گرا دے گا اور پھر یہودی کہیں گے کہ جب مسجد مسمار ہو ہی گئی ہے تو اب ہمیں یہاں ہیکل تعمیر کرنے دیں۔  جیسے ایودھیا میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ہندوؤں کا موقف تھا کہ جب مسجد گر ہی گئی ہے تو اب یہاں پر ہمیں رام مندر بنانے دو! بہرحال یہ حضرت عزیر کا واقعہ تھا۔  اب اسی طرح کا ایک معاملہ حضرت ابراہیم  کا مشاہدہ ہے۔ 

UP
X
<>