May 18, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 260

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب ابراہیم نے کہا تھا کہ میرے پروردگار ! مجھے دکھائیے کہ آپ مردوں کو کیسے زندہ کرتے ہیں ؟ اﷲ نے کہا :’’ کیا تمہیں یقین نہیں ؟ ‘‘ کہنے لگے : ’’ یقین کیوں نہ ہوتا ؟ مگر (یہ خواہش اس لئے کی ہے) تاکہ میرے دل کو پورا اطمینان حاصل ہو جائے ۔ ‘‘ اﷲ نے کہا :’’ اچھا ! تو چار پرندے لو، انہیں اپنے سے مانوس کر لو، پھر (ان کو ذبح کر کے) ان کا ایک ایک حصہ ہر پہاڑ پر رکھ دو، پھر ان کو بلاؤ، وہ چاروں تمہارے پاس دوڑے چلے آئیں گے ۔ اور جان رکھو کہ اﷲ پوری طرح صاحبِ اقتدار بھی ہے، اعلیٰ درجے کی حکمت والا بھی ۔ ‘‘

 آیت 260:    وَاِذْ قَالَ اِبْراهِيْمُ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی :  «اور یاد کرو جبکہ ابراہیم  نے بھی کہا تھا پروردگار! ذرامجھے مشاہدہ کرا دے کہ تو مُردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟»

      قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ :   «(اللہ تعالیٰ نے ) فرمایا کیا تم (اس بات پر) ایمان نہیں رکھتے؟»

      قَالَ بَلٰی :   «کہا کیوں نہیں! (ایمان تو رکھتا ہوں)»

     وَلٰـکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ :   «لیکن چاہتا ہوں کہ میرا دل پوری طرح مطمئن ہوجائے۔ »

     یہ تمام انبیائِ کرام  کا معاملہ ہے کہ انہیں عین الیقین اور حق الیقین کے درجے کا ایمان عطا کیا جاتا ہے۔  انہیں چونکہ ایمان اور یقین کی ایک ایسی بھٹی ّ(furnace) بنانا ہوتا ہے کہ جس سے ایمان اور یقین دوسروں میں سرایت کرے‘ تو ان کے ایمان و یقین کے لیے ان کو ایسے مشاہدات کروا دیے جاتے ہیں کہ ایمان ان کے لیے صرف ایمان بالغیب نہیں رہتا بلکہ وہ ایمان بالشہادۃ بھی ہو جاتا ہے۔  سورۃ الانعام میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ ہم نے ابراہیم   کو آسمانوں اور زمین کے نظامِ حکومت کا مشاہدہ کرایا تاکہ وہ کامل یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے۔ محمد رسول اللہ  کو شب معراج میں آسمانوں پر لے جایا گیا کہ وہ ہر شے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ۔  ان مشاہدات سے انبیاء کو ان ایمانی حقائق پر یقین کامل ہو جاتا ہے جن کی وہ لوگوں کو دعوت دیتے ہیں۔  گویا وہ خود ایمان اور یقین کی ایک بھٹی ّبن جاتے ہیں۔  

       قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْہُنَّ اِلَـیْکَ :   «فرمایا‘ اچھاتو چار پرندے لے لو اور انہیں اپنے ساتھ ہلا لو»

       انہیں اپنے ساتھ اس طرح مانوس کر لو کہ وہ تمہاری آواز سن کر تمہارے پاس آ جایا کریں۔

       ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْہُنَّ جُزْءًا :   «پھر اُن کے ٹکڑے کر کے ہر پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دو»

       ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَاْتِیْنَکَ سَعْیًا:  «پھر اُن کو پکارو تووہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آئیں گے۔ »

     اس کی تفصیل میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم نے چاروں پرندوں کے سر‘ دھڑ‘ ٹانگیں اور اُن کے َپر علیحدہ علیحدہ کیے۔  پھر ایک پہاڑ پر چاروں کے سر‘ دوسرے پہاڑ پر چاروں کے دھڑ‘ تیسرے پہاڑ پر چاروں کی ٹانگیں اور چوتھے پہاڑ پر چاروں کے َپر رکھ دیے ۔  اس طرح انہیں مختلف اجزاء میں تقسیم کر دیا۔  پھر انہیں پکارا تو اُن کے اجزاء مجتمع ہو کر چاروں پرندے اپنی سابقہ ہیئت میں زندہ ہو کر حضرت ابراہیم کے پاس دوڑتے ہوئے آ گئے۔

     وَاعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ :   «اور(اس بات کو یقین کے ساتھ) جان لو کہ اللہ تعالیٰ زبردست ہے‘ کمال حکمت والا ہے۔ » 

UP
X
<>