May 18, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 261

مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

جو لوگ اﷲ کے راستے میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ سات بالیں اگائے (اور) ہر بال میں سو دانے ہوں ۔ اور اﷲ جس کیلئے چاہتا ہے (ثواب میں ) کئی گنا اضافہ کر دیتا ہے ۔ اﷲ بہت وسعت والا (اور) بڑے علم والا ہے

      اب جو دو رکوع آ رہے ہیں‘ ان کا موضوع انفاق فی سبیل اللہ ہے‘ اور اس موضوع پر یہ قرآن مجید کا  ذروۃ السنام (climax) ہے۔ ان کے مطالعہ سے پہلے یہ بات نوٹ کر لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے اپنا مال خرچ کرنے کے لیے دین میں کئی اصطلاحات ہیں۔  سب سے پہلی «اِطعامُ الطّعام» (کھانا کھلانا) ہے:   وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا :   (الدھر) دوسری اصطلاح ایتائے مال ہے:  وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْـیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ… الخ :   (البقرۃ: 177) پھر اس سے آگے صدقہ‘ زکوٰۃ‘ انفاق اور قرضِ حسنہ جیسی اصطلاحات آتی ہیں۔  یہ پانچ چھ اصطلاحات (terms) ہیں‘ لیکن ان کے اندر ایک تقسیم ذہن میں رکھیے۔  اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے مال خرچ کرنے کی دو بڑی بڑی مدیں ہیں۔  ایک مد ابنائے نوع پر خرچ کرنے کی ہے۔  یعنی قرابت دار‘ غرباء‘ یتامیٰ‘مساکین» محتاج اور بیواؤں پر خرچ کرنا۔  یہ آپ کے معاشرے کے اجزاء ہیں‘ آپ کے بھائی بند ہیں‘ آپ کے عزیز و اقرباء ہیں۔  ان کے لیے خرچ کرنا بھی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اور اس کا اجر ملے گا۔  یہ بھی گویا آپ نے اللہ تعالیٰ ہی کے لیے خرچ کیا۔  جبکہ دوسری مد ہے عین اللہ کے دین کے لیے خرچ کرنا۔  

      قرآن حکیم میں انفاق اور قرضِ حسنہ کی اصطلاحیں اس دوسری مد کے لیے آتی ہیں اورپہلی مد کے لیے اطعام الطعام‘ ایتائے مال‘ صدقہ و خیرات اور زکوٰۃ کی اصطلاحات ہیں۔  چنانچہ انفاقِ مال یا انفاق فی سبیل اللہ سے مراد ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا‘ اللہ کے دین کی دعوت کو عام کرنے اور اللہ کی کتاب کے پیغام کو عام کرنے کے لیے خرچ کرنا۔  اللہ کے دین کی دعوت کو اس طرح ابھارنا کہ باطل کے ساتھ زور آزمائی کرنے والی ایک طاقت پیدا ہو جائے‘ ایک جماعت وجود میں آئے۔  اس جماعت کے لیے ساز و سامان فراہم کرنا تاکہ غلبہ ٔدین کے ہر مرحلے کے جو تقاضے اور ضرورتیں ہیں وہ پوری ہو سکیں‘ اس کام میں جو مال َصرف ہو گا وہ ہے انفاق فی سبیل اللہ یا اللہ کے ذمہ ّقرضِ حسنہ۔  تو یہاں اصل میں اس انفاق کی بات ہو رہی ہے ۔  عام طور پر فی سبیل اللہ کا مفہوم بہت عام سمجھ لیا جاتا ہے اور پانی کی کوئی «سبیل» بنا کر اسے بھی  «فی سبیل اللہ» قرار دے دیا جاتا ہے۔  ٹھیک ہے‘ وہ بھی سبیل تو ہے‘ نیکی کا وہ بھی راستہ ہے‘ سبیل اللہ ہے‘ لیکن «انفاق فی سبیل اللہ» کا مفہوم بالکل اور ہے۔  فقراء و مساکین اور اہل حاجت کے لیے صدقات و خیرات ہیں۔  زکوٰۃ بھی اصلاً غریبوں کا حق ہے‘ لیکن اس میں بھی ایک مد «فی سبیل اللہ» کی رکھی گئی ہے۔  اگر آپ کے عزیز و اقارب اور قرب و جوار میں اہل حاجت ہیں‘ غرباء ہیں تو صدقہ و زکوٰۃ میں ان کا حق فائق ہے‘ پہلے ان کو دیجیے۔  اس کے بعد اس میں سے جو بھی ہے وہ دین کے کام کے لیے لگایئے۔  جب دین یتیمی کی حالت کو آ گیا ہو تو سب سے بڑایتیم دین ہے۔  اور آج واقعتا دین کی یہی حالت ہے۔  اب ہم ان آیات کا مطالعہ کرتے ہیں:

 آیت 261:    مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْـبُـلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ :   «مثال ان کی جو اپنے مال اللہ کی راہ میں (اللہ کے دین کے لیے) خرچ کرتے ہیں ایسے ہے جیسے ایک دانہ کہ اُس سے سات بالیاں (خوشے) پیدا ہوں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں۔ »

            اس طرح ایک دانے سے سات سو دانے وجود میں آ گئے۔  یہ اُس اضافے کی مثال ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کیے ہوئے مال کے اجر و ثواب میں ہو گا۔  جو کوئی بھی اللہ کے دین کے لیے اپنا مال خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے مال میں اضافہ کرے گا‘اس کو جزا دے گا اور اپنے یہاں اس اجر و ثواب کو بڑھاتا رہے گا۔

      وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ :   «اللہ جس کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے۔ »

            یہ سات سو گنا اضافہ تو تمہیں تمثیلاً بتایا ہے‘ اللہ اس سے بھی زیادہ اضافہ کرے گا جس کے لیے چاہے گا۔  صرف سات سو گنا نہیں ‘اور بھی جتنا چاہے گا بڑھاتا چلا جائے گا۔

    وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ :  «اور اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ »

      اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں اور اس کا علم ہر شے کو محیط ہے۔ 

UP
X
<>