May 18, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 264

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لَا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ

اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور تکلیف پہنچا کر اس شخص کی طرح ضائع مت کرو جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کیلئے خرچ کرتا ہے اور اﷲ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا ۔ چنانچہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چکنی چٹان پر مٹی جمی ہو، پھر اس پر زور کی بارش پڑے اور اس (مٹی کو بہا کر چٹان) کو (دوبارہ) چکنی بنا چھوڑے ۔ ایسے لوگوں نے جو کمائی کی ہوتی ہے وہ ذرا بھی ان کے ہاتھ نہیں لگتی اور اﷲ (ایسے) کافروں کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا

 آیت  264:    یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی :   «اے اہل ِایمان! اپنے صدقات کو باطل نہ کرلو احسان جتلا کر اور کوئی اذیت بخش بات کہہ کر»

             کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہ رِئَــآءَ النَّاسِ :   «اُس شخص کی طرح جو اپنا مال خرچ کرتا ہے لوگوں کو دکھانے کے لیے»

            اگرچہ اپنا مال خرچ کر رہا ہے‘ لوگوں کو صدقات دے رہا ہے‘ بڑے بڑے خیراتی ادارے قائم کر دیے ہیں‘ لیکن یہ سب کچھ ریا کاری کے لیے‘ سرکار دربار میں رسائی کے لیے‘ کچھ اپنے ٹیکس بچانے کے لیے اور کچھ اپنی ناموری کے لیے ہے۔  یہ سارے کام جو ہوتے ہیں اللہ جانتا ہے کہ ان میں کس کی کیا نیت ہے۔

             وَلاَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ :   «اور وہ ایمان نہیں رکھتا اللہ اور یومِ آخرت پر۔ »

            جو کوئی ریا کاری کر رہا ہے وہ حقیقت میں اللہ پر اوریومِ آخرت پر ایمان نہیںرکھتا۔  ریا اور ایمان ایک دوسرے کی ضد ہیں‘ جیسا کہ یہ حدیث ہم متعدد بار پڑھ چکے ہیں:

((مَنْ صَلّٰی یُرَائِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ‘ وَمَنْ صَامَ یُرَائِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَائِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ))

«جس نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی اُس نے شرک کیا‘ جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا اُس نے شرک کیا‘ اور جس نے دکھاوے کے لیے لوگوں کو صدقہ و خیرات دیا اُس نے شرک کیا۔ »

             فَمَثَلُہ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَابٌ :   «تو اس کی مثال اس چٹان کی سی ہے جس پر کچھ مٹی (جم گئی) ہو»

            اگر کسی چٹان پر مٹی کی تھوڑی سی تہہ جم گئی ہو اور وہاں آپ نے کچھ بیج ڈال دیے ہوں تو ہو سکتا ہے کہ وہاں کوئی فصل بھی اُگ آئے‘ لیکن وہ انتہائی ناپائیدار ہو گی۔

             فَاَصَابَہ وَابِلٌ فَتَرَکَہ صَلْدًا :   «پھر اس پر زور دار بارش پڑے تو وہ اس کو بالکل صاف پتھر چھوڑ دے۔ »

            بارش کے ایک ہی زور دار چھینٹے میں چٹان کے اُوپر جمی ہوئی مٹی کی تہہ بھی بہہ گئی‘آپ کی محنت بھی ضائع ہو گئی‘ آپ کا بیج بھی اکارت گیا اور آپ کی فصل بھی گئی۔  بارش سے دھل کر وہ چٹان اندر سے بالکل صاف اور چٹیل نکل آئی۔  یعنی سب کچھ گیا اور کچھ حاصل نہ ہوا۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاکاری کا یہی انجام ہوتا ہے کہ ہاتھ سے مال بھی دیا اور حاصل کچھ نہ ہوا۔  اللہ کے ہاں کسی اجر و ثواب کا سوال ہی نہیں۔

             لاَ یَـقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْئٍ مِّمَّا کَسَبُوْا :   «ان کی کمائی میں سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آئے‘گا۔ »

            ایسے لوگ اپنے تئیں صدقہ و خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں اس میں سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا۔

             وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ :   «اور اللہ تعالیٰ ایسے کافروں کو راہ یاب نہیں کرتا۔ »

            وہ ناشکروں اور منکرین ِنعمت کو سیدھی راہ نہیں دکھاتا اور انہیں بامراد نہیں کرتا۔

            اگلی آیت میں فوری تقابل (simultaneous contrast) کے طور پر ان لوگوں کے لیے بھی مثال بیان کی جا رہی ہے جو واقعتا اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے خلوص و اخلاص سے خرچ کرتے ہیں۔ 

UP
X
<>