May 18, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 265

وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِنْ لَمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

اور جو لوگ اپنے مال اﷲ کی خوشنودی طلب کرنے کیلئے اور اپنے آپ میں پختگی پیدا کرنے کیلئے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک باغ کسی ٹیلے پر واقع ہو، اس پر زور کی بارش برسے تو وہ دگنا پھل لے کر آئے، اور اگر اس پر زور کی بارش نہ بھی برسے تو ہلکی پھوار بھی اس کیلئے کافی ہے ۔ اور تم جو عمل بھی کرتے ہو اﷲ اسے خوب اچھی طرح دیکھتا ہے

 آیت 265:    وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمُ ابْتِغَـآءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ :   «اور مثال ان لوگوں کی جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال اللہ کی رضاجوئی کے لیے»

             وَتَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ :   «اور اپنے دلوں کو جمائے رکھنے کے لیے»

             کَمَثَلِ جَنَّۃٍ بِرَبْوَۃٍ :   «اُس باغ کی مانند ہے جو بلندی پر واقع ہو»

            جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ قدرتی باغ کا یہی تصور ہوتا تھا کہ ذرا اونچائی پر واقع ہے‘ اس کے دامن میں کوئی ندی بہہ رہی ہے جس سے خود بخود آب پاشی ہو رہی ہے اور وہ سیراب ہو رہا ہے۔

            [قادیانیوں نے اسی لفظ «ربوہ» کے نام پر پاکستان میں اپنا شہر بنایا۔]

             اَصَابَہَا وَابِلٌ :   «اب اگر اس باغ کے اوپر زوردار بارش برسے»

  فَاٰتـَتْ اُکُلَہَا ضِعْفَیْنِ :   «تو دوگنا پھل لائے۔ »

             فَاِنْ لَّـمْ یُصِبْہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ :   «اور اگر زور دار بارش نہ بھی برسے تو ہلکی سی پھوار (ہی اس کے لیے کافی ہو جائے)۔ »

             وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ :   «اور جو کچھ تم کر رہے ہو‘ اللہ تعالیٰ اس کو دیکھ رہا ہے۔ »

            لہٰذا تم دروں بینی (intro spection) کرتے رہا کرو کہ تم جو یہ مال خرچ کر رہے ہو واقعتا خلوصِ دل اور اخلاصِ نیت کے ساتھ اللہ ہی کے لیے کر رہے ہو۔ کہیں غیر شعوری طور پر تمہارا کوئی اور جذبہ اس میں شامل نہ ہو جائے۔  چنانچہ اپنے گریبانوں میں جھانکتے رہو۔

UP
X
<>