May 18, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 267

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِيهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ

اے ایمان والو ! جو کچھ تم نے کمایا ہو اور جو پیداوار ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالی ہو اس کی اچھی چیزوں کا ایک حصہ (اﷲ کے راستے میں) خرچ کیا کرو۔ اوریہ نیت نہ رکھو کہ بس ایسی خراب قسم کی چیزیں (اﷲ کے نا م پر) دیا کروگے جو (اگر کوئی دوسرا تمہیں دے تو نفر ت کے مارے) تم سے آنکھیں میچے بغیر نہ لے سکو ۔ اور یاد رکھو کہ اﷲ ایسا بے نیاز ہے کہ ہر قسم کی تعریف اسی کی طرف لوٹتی ہے

 آیت 267:    یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ :   «اے ایمان والو! اپنے کمائے ہوئے پاکیزہ مال میں سے خرچ کرو۔ »

            اللہ کے دین کے لیے خرچ کرنا ہے‘ اللہ کے نام پر دینا ہے تو جو کچھ تم نے کمایا ہے اس میں سے اچھی چیز‘ پاکیزہ چیز‘ بہتر چیز نکالو۔  

             وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَـکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ :   «اوراس میں سے خرچ کرو جو کچھ ہم نے نکالا ہے تمہارے لیے زمین سے۔ »

            ظاہر بات ہے کہ زمین سے جو بھی نباتات باہر آ رہی ہیں ان کا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔  چاہے کوئی چراگاہ ہے تو اس کے اندر جو ہریاول ہے وہ اللہ ہی نے پیدا کی ہے ۔  کھیت کے اندر آپ نے محنت کی ہے‘ ہل چلایا ہے‘ بیج ڈالے ہیں‘ لیکن فصل کا اُگانا تو آپ کے اختیار میں نہیں ہے‘ یہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔   «پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون؟»  چنانچہ فرمایا کہ جو کچھ ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے اُس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرو!

             وَلاَ تَـیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ :   «اور اس میں سے ردّی مال کا ارادہ نہ کرو کہ اسے خرچ کر دو!»

            ایسا نہ ہو کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے ردّی اور ناکارہ مال چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو۔  مثلاً بھیڑ بکریوں کا گلہ ہے‘ اس میں سے تمہیں زکوٰۃ کے لیے بھیڑیں اور بکریاں نکالنی ہیں تو ایسا ہرگز نہ ہو کہ جو کمزور ہیں‘ ذرا لاغر ہیں‘ بیمار ہیں‘ نقص والی ہیں انہیں نکال کر گنتی پوری کر دو۔  اسی طرح عشر ُنکالنا ہے تو ایسا نہ کرو کہ گندم کے جس حصے پر بارش پڑ گئی تھی وہ نکال دو۔  تیمم کے معنی قصد اور ارادہ کرنے کے ہیں۔

             وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ :   «اور تم ہرگز نہیں ہو گے اس کو لینے والے (اگر وہ شے تم کو دی جائے) الا یہ کہ چشم پوشی کر جاؤ۔ »   ّ

            ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ تم محتاج ہو جاؤ اور تمہیں ضرورت پڑ جائے‘ پھر اگر تمہیں کوئی ایسی چیز دے گا تو تم قبول نہیں کرو گے‘ اِلا ّیہ کہ چشم پوشی کرنے پر مجبور ہو جاؤ۔  احتیاج اس درجے کی ہو کہ نفیس یا خبیث جو شے بھی مل جائے چشم پوشی کرتے ہوئے اسے قبول کر لو۔ ورنہ آدمی اپنے طیب ِخاطر کے ساتھ ردی شے قبول نہیں کر سکتا۔

             وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ:   «اور خوب جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ غنی ہے اور حمید ہے۔ »

            یہاں «غنی» کا لفظ دوبارہ آیا ہے۔  یہ نہ سمجھو کہ تم کسی محتاج اور ضرورت مند کو دے رہے ہو‘ بلکہ یوں سمجھو کہ اللہ کو دے رہے ہو‘ جو غنی ہے ‘سب کی ضرورتیں پوری کرنے والا ہے اور حمید ہے‘ یعنی اپنی ذات میں خود محمود ہے۔  ایک تو کسی شے کی اچھائی یا حسن یا کمال ایسا ہوتا ہے کہ جسے ظاہر کیا جائے کہ بھئی دیکھو اس میں یہ خوبصورتی ہے۔  اور ایک وہ خوبصورتی ہوتی ہے جو ازخود ظاہر ہو۔    «حاجت ِمشاطہ ّنیست روئے دل آرام را!»  تو اللہ تعالیٰ اتنا ستودہ صفات ہے کہ وہ اپنی ذات میں از خود محمود ہے‘ اسے کسی حمد کی حاجت نہیں ہے۔  

UP
X
<>