May 18, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 269

يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ

وہ جس کو چاہتا ہے دانائی عطا کردیتا ہے اور جسے دانائی عطا ہو گئی اسے وافر مقدار میں بھلائی مل گئی ۔ اور نصیحت وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو سمجھ کے مالک ہیں

 آیت 269:    یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآءُ :  «وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے۔ »

            یہ حکمت کی باتیں ہیں‘ جن کا سمجھنا ہر کس و ناکس کے لیے ممکن نہیں۔  ایک چیزوں کا ظاہر ہے اور ایک باطن ہے‘ جو حکمت سے نظر آتا ہے۔  ظاہر تو سب کو نظر آ رہا ہے‘ لیکن کسی شے کی حقیقت کیا ہے‘ یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے: 

اے اہل ِنظر !   ذوقِ نظر   خوب   ہے لیکن                 

جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا؟                 

            جس کسی پر یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے وہ حکیم ہے۔  اور حکمت اصل میں انسان کی عقل اور شعور کی پختگی کا نام ہے۔  استحکام اسی «حکمت» سے ہی بنا ہے ۔  اللہ تعالیٰ عقل و فہم اور شعور کی یہ پختگی اور حقائق تک پہنچ جانے کی صلاحیت جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔

             وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا :   «اور جسے حکمت دے دی گئی اسے تو خیر ِکثیر عطا ہو گیا۔ »

            اس سے بڑا خیر کا خزانہ تو اور کوئی ہے ہی نہیں۔

             وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ :   «اور نہیں نصیحت حاصل کر سکتے مگر وہی لوگ جو

ہوش مند ہیں۔ »

            ان باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیںجو (اولو الالباب) ہیں‘ عقل مند ہیں۔  لیکن جو دنیا پر ریجھ  گئے ہیں ‘ جن کا سارا دلی اطمینان اپنے مال و زر‘ جائیداد‘ اثاثہ جات اور بینک بیلنس پر ہے تو ظاہر بات ہے کہ وہ اولو الالباب (عقل مند) نہیں ہیں۔ 

UP
X
<>