May 18, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 273

لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ

(مالی امداد کے بطور خاص) مستحق وہ فقرا ء ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اﷲ کی راہ میں اس طرح مقید کر رکھا ہے کہ وہ (معاش کی تلاش کیلئے) زمین میں چل پھر نہیں سکتے ۔ چونکہ وہ اتنے پاک دامن ہیں کہ کسی سے سوال نہیں کرتے ۔ اس لئے ناواقف آدمی انہیں مال دار سمجھتا ہے ۔ تم ان کے چہرے کی علامتوں سے ان (کی اندرونی حالت) کو پہچان سکتے ہو (مگر) وہ لوگوں سے لگ لپٹ کر سوال نہیں کرتے ۔ اور تم جو مال بھی خرچ کرتے ہو اﷲ اسے خوب جانتا ہے

            اب واضح کیا جا رہا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کا سب سے بڑھ کر حق دار کون ہے۔  

 آیت 273:    لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ :   «یہ ان ضرورت مندوں کے لیے ہے جو گِھر کر رہ گئے ہیں اللہ کی راہ میں»

            جیسے رسول اللہ  کے دور میں اصحابِ صفہ تھے کہ مسجد نبوی میں آ کر بیٹھے ہوئے ہیں اوراپنا وقت تلاشِ معاش میں َصرف نہیں کر رہے‘ آنحضور  سے علم سیکھ رہے ہیں اور جہاں جہاں سے مطالبہ آرہا ہے کہ معلمین اور مبلغین ّکی ضرورت ہے وہاں ان کو بھیجا جا رہا ہے۔  اگر وہ معاش کی ّجدوجہد ُکرتے تو یہ تعلیم کیسے حاصل کرتے؟ اسی طرح دین کی کسی خدمت کے لیے کچھ لوگ اپنے آپ کو وقف کر دیتے ہیں تو وہ اس کا مصداق ہوں گے۔  آپ نے دین کی دعوت و تبلیغ اور نشر واشاعت کے لیے کوئی تحریک اٹھائی ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ ہمہ وقتی کارکن درکار ہوں گے۔  ان کارکنوں کی معاش کا مسئلہ ہو گا۔  وہ آٹھ آٹھ گھنٹے دفتروں میں جا کر کام کریں اور وہاں افسروں کی ڈانٹ ڈپٹ بھی سنیں‘ آنے جانے میں بھی دو دو گھنٹے لگائیں تو اب وہ دین کے کام کے لیے کون سا وقت نکالیں گے اور کیا کام کریں گے؟ لہٰذا کچھ لوگ تو ہونے چاہئیں جو اس کام میں ہمہ وقت لگ جائیں۔  لیکن پیٹ تو ان کے ساتھ بھی ہیں‘ اولاد تو ان کی بھی ہو گی۔  

             لاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ :   «وہ (اپنے کسب معاش کے لیے) زمین میں دوڑ دھوپ نہیں کر سکتے۔ »

            زمین کے اندر گھوم پھر کر تجارت کرنے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔  

             یَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِیَـآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ :   «نا واقف آدمی ان کو خوشحال خیال کرتا ہے ان کی خود داری کے سبب۔ »

            یہ اس طرح کے فقیر تو ہیں نہیں جو لپٹ کر مانگتے ہوں۔  ان کی خود داری کی وجہ سے عام طورپر جو ناواقف شخص ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ غنی ہیں‘ خوشحال ہیں‘ انہیں کوئی ضرورت ہی نہیں‘ انہوں نے کبھی مانگا ہی نہیں۔  لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس طرح کے سوالی نہیں ہیں‘ وہ فقیر نہیں ہیں‘ انہوں نے تو اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے اپنے آپ کو لگا دیا ہے۔  یہ تمہارا کام ہے کہ انہیں تلاش کرو اور ان کی ضروریات پوری کرو۔  

             تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمٰہُمْ :   «تم پہچان لو گے انہیں ان کے چہروں سے۔ »

            ظاہر بات ہے کہ فقر و احتیاج کا اثر چہرے پر تو آ جاتا ہے۔  اگر کسی کو صحیح غذا نہیں مل رہی ہے تو چہرے پر اس کا اثر ظاہر ہو گا۔  

             لاَ یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا :   «وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔ »

            وہ ان سائلوں کی طرح نہیں ہیں جو اصل میں اپنی محنت کا صلہ وصول کرتے ہیں کہ آپ کے سر ہو کر آپ سے زبردستی کچھ نہ کچھ نکلوا لیتے ہیں۔  یہ بڑا اہم مسئلہ ہے کہ اقامت ِدین کی ّجدوجہد ُمیں جو لوگ ہمہ وقت لگ جائیں ‘ آخر ان کے لیے ذریعہ ٔ معاش کیا ہو؟ اس وقت اس پر تفصیل سے گفتگو ممکن نہیں۔  بہرحال یہ سمجھ لیجیے کہ یہ دو رکوع انفاق کے موضوع پر قرآن حکیم کا نقطہ ٔعروج ہیں اور یہ آخری آیت ان میں اہم ترین ہے۔  

             وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہ عَلِیْمٌ :   «اور جو مال بھی تم خرچ کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کو خوب جانتا ہے۔ »

            یہ نہ سمجھنا کہ تمہارا انفاق اللہ  کے علم میں نہیں ہے۔  تم خاموشی کے ساتھ‘ اخفا کے ساتھ لوگوں کے ساتھ تعاون کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا بھر پور بدلہ دے گا۔ 

UP
X
<>