May 18, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 274

الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

جو لوگ اپنے مال دن رات خاموشی سے بھی اور علانیہ بھی خرچ کرتے ہیں وہ اپنے پروردگار کے پاس اپنا ثواب پائیں گے اور نہ انہیں کوئی خوف لاحق ہوگا، نہ کوئی غم پہنچے گا

            اب ہم اس سورئہ مبارکہ کا جو رکوع پڑھ رہے ہیں یہ آج کے حالات میں اہم ترین ہے۔  یہ رکوع سود کی حرمت اور شناعت پر قرآن حکیم کا انتہائی اہم مقام ہے۔  اِس دَور میں اللہ تعالیٰ کے خلاف بغاوت کی سب سے بڑی صورت تو غیر اللہ کی حاکمیت کا تصور ہے‘ جو سب سے بڑا شرک ہے۔  اگرچہ نفسیاتی او ر داخلی اعتبار سے سب سے بڑا شرک مادّے پر توکل ّہے‘ لیکن خارجی اور واقعاتی دنیا میں اس وقت سب سے بڑا شرک غیر اللہ کی حاکمیت ہے‘ جو اَب «عوامی حاکمیت» کی شکل اختیار کر گئی ہے۔  اس کے بعد اس وقت کے گناہوں اور بدعملی میں سب سے بڑا فتنہ اور فساد سود کی بنیاد پر ہے۔ اِس وقت دنیا میں سب سے بڑی شیطنت جو یہودیوں کے ذریعے سے پورے کرئہ ارضی کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے بے تاب ہے ‘وہ یہی سود کا ہتھکنڈا ہے۔  یہاں اس کی حرمت دو ٹوک انداز میں بیان کر دی گئی۔  اس مقام پر میرے ذہن میں کبھی کبھی ایک سوال پیدا ہوتا تھا کہ اس رکوع کی پہلی آیت کا تعلق تو انفاق فی سبیل اللہ سے ہے ‘ لہٰذا اسے پچھلے رکوع کے ساتھ شامل ہونا چاہیے تھا‘ لیکن بعد میں یہ حقیقت مجھ پر منکشف ہوئی کہ اس آیت کو بڑی حکمت کے ساتھ اس رکوع کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔  وہ حکمت مَیں بعد میں بیان کروں گا۔

 آیت 274:    اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ بِالَّـیْلِ وَالنَّہَارِ :   «جو لوگ اپنا مال خرچ کرتے رہتے ہیں رات کو بھی اور دن میں بھی»

             سِرًّا وَّعَلاَنِیَۃً :   «خفیہ طور پر بھی اور علانیہ بھی»

            صدقاتِ واجبہ علانیہ اور صدقاتِ نافلہ خفیہ طور پر دیتے ہیں۔

             فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ :   «اُن کے لیے ان کا اجر (محفوظ) ہے ان کے ربّ کے پاس‘ نہ تو اُن پر کوئی خوف طاری ہو گا اور نہ ہی وہ کسی حزن سے دوچار ہوں گے۔ »

            اس کے برعکس معاملہ اُن کا ہے جو سود کھاتے ہیں ۔  وجہ کیا ہے؟ اصل مسئلہ ہے «قدرِ زائد» (surplus value) کا! آپ کا کوئی شغل ہے‘ کوئی کاروبار ہے یا ملازمت ہے‘ آپ کما رہے ہیں‘ اس سے آپ کا خرچ پورا ہو رہا ہے‘ کچھ بچت بھی ہو رہی ہے۔  اب اس بچت کا اصل مصرف کیا ہے؟ آیت: 219 میں ہم پڑھ آئے ہیں:  وَیَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ :   «لوگ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کتنا خرچ کریں؟ کہہ دیجیے جو بھی زائد از ضرورت ہو!» چنانچہ اصل راستہ تو یہ ہے کہ اپنی بچت کو اللہ کی راہ میں خرچ کر دو۔  یا محتاجوں کو دے دو یا اللہ کے دین کی نشرو اشاعت اور سر بلندی میں لگا دو۔  لیکن سود خورانہ ذہنیت یہ ہے کہ اس بچت کو بھی مزید کمائی کا ذریعہ بناؤ۔  لہٰذا اصل میں سود خوری انفاق فی سبیل اللہ کی ضد ہے ۔  یہ عقدہ مجھ پر اُس وقت کھلا جب میں نے «اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہ بَعْضًا» کے اصول کے تحت سورۃ الروم کی آیت: 39 کا مطالعہ کیا۔  وہاں بھی ان دونوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لایا گیا ہے‘ اللہ کی رضا جوئی کے لیے انفاق اور اس کے مقابلے میں ربا ‘ یعنی سود پر رقم دینا۔  فرمایا:  وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَا فِیْ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ :  «اور جو مال تم دیتے ہو سود پر تاکہ لوگوں کے اموال میں (شامل ہو کر) بڑھ جائے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا»۔ محنت کوئی کر رہا ہے اور آپ اس کی کمائی میں سے اپنے سرمائے کی وجہ سے وصول کر رہے ہیں تو آپ کا مال اس کے مال میں شامل ہو کر اس کی محنت سے بڑھ رہا ہے۔  لیکن اللہ کے ہاں اس کی بڑھوتری نہیں ہوتی۔   وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ :   «اور وہ جو تم زکوٰۃ (اور صدقات) میں دے دیتے ہو محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے تویہی لوگ (اپنے مال اللہ کے ہاں) بڑھا رہے ہیں»۔ ان کا مال مسلسل بڑھ رہا ہے‘ اس کی بڑھوتری ہو رہی ہے۔  چنانچہ انفاق فی سبیل اللہ اور صدقات و زکوٰۃ وغیرہ کا معاملہ سود کے بالمقابل اور اس کے برعکس ہے۔ اپنے اس بچت کے مال کو یا تو کوئی اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا یا پھر سودی منافع حاصل کرنے کا ذریعہ بنائے گا۔  اور آپ کو معلوم ہے کہ آج کے بینکنگ کے نظام میں سب سے زیادہ زور بچت (saving) پر دیا جاتا ہے اور اس کے لیے سیونگ اکاؤنٹ اور بہت سی ُپرکشش منافع بخش سکیمیں متعارف کرائی جاتی ہیں۔  ان کی طرف سے یہی ترغیب دی جاتی ہے کہ بچت کرو مزید کمانے کے لیے! بچت اس لیے نہیں کہ اپنا پیٹ کاٹو اور غرباء کی ضروریات پوری کرو‘ اپنا معیارِ زندگی کم کرو اور اللہ کے دین کے لیے خرچ کرو۔  نہیں‘ بلکہ اس لیے کہ جو کچھ تم بچاؤ وہ ہمیں دو‘ تاکہ وہ ہم زیادہ شرح سود پر دوسروں کو دیں اور تھوڑی شرح سود تمہیں دے دیں۔  چنانچہ انفاق اور سود ایک دوسرے کی ضد ہیں۔  فرمایا:

UP
X
<>