May 18, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 275

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھوکر پاگل بنادیا ہو ۔ یہ اس لئے ہوگا کہ انہوں نے کہا تھا کہ : ’’ بیع بھی تو سود ہی کی طرح ہوتی ہے ۔ ‘‘ حالانکہ اﷲ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے ۔ لہٰذا جس شخص کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت آگئی اور وہ (سودی معاملات سے) باز آگیا تو ماضی میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا ہے اور اس (کی باطنی کیفیت) کا معاملہ اﷲ کے حوالے ہے اور جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی کام کیا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں ۔ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے

 آیت 275:   اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا :  «جو لوگ سود کھاتے ہیں ۔ »

             لاَ یَـقُوْمُوْنَ اِلاَّ کَمَا یَـقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ :   «وہ نہیں کھڑے ہوتے مگر اُس شخص کی طرح جس کو شیطان نے چھو کر مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔ »

            یہاں عام طو رپر یہ سمجھا گیا ہے کہ یہ قیامت کے دن کا نقشہ ہے۔  قیامت کے دن کا یہ نقشہ تو ہو گا ہی‘ اس دنیا میں بھی سود خوروں کا حال یہی ہوتا ہے‘ اور ان کا یہ نقشہ کسی سٹاک ایکسچینج میں جا کر بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ معلوم ہوگا گویا دیوانے ہیں‘ پاگل ہیں‘ جو چیخ رہے ہیں‘ دوڑ رہے ہیں‘ بھاگ رہے ہیں۔  وہ نارمل انسان نظر نہیں آتے‘ مخبوط الحواس لوگ نظر آتے ہیں جن پر گویا آسیب کا سایہ ہو۔  

             ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا :   «اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں بیع بھی تو سود ہی کی طرح ہے۔ »

            کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ میں نے سو روپے کا مال خریدا‘ ۱۱۰ روپے میں بیچ دیا‘ دس روپے بچ گئے‘ یہ ربح (منافع) ہے‘ جو جائز ہے‘ لیکن اگر سو روپے کسی کو دیے اور ۱۱۰ واپس لیے تو یہ ربا (سود) ہے‘ یہ حرام کیوں ہو گیا؟ ایک شخص نے دس لاکھ کا مکان بنایا‘ چار ہزار روپے ماہانہ کرایے پر دے دیا تو جائز ہو گیا‘ اور دس لاکھ روپے کسی کو قرض دیے اور اُس سے چار ہزار روپے مہینہ لینا شروع کیے تو یہ سود ہو گیا ‘ حرام ہو گیا‘ ایسا کیوں ہے؟ عقلی طور پر اس طرح کی باتیں سود کے حامیوں کی طرف سے کہی جاتی ہیں ۔  (ربح اور ربا کا فرق سورۃ البقرۃ کی آیت: 26 کے ضمن میں بیان ہو چکا ہے۔) اس ظاہری مناسبت کی وجہ سے یہ مخبوط الحواس سود خور لوگ ان دونوں کے اندر کوئی فرق محسوس نہیں کرتے۔  یہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے قول کا عقلی جواب نہیں دیا‘ بلکہ فرمایا:

             وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا :   «حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال قرار دیا ہے اور ربا کو حرام ٹھہرایا ہے۔ »

            اب تم یہ بات کرو کہ اللہ کو مانتے ہو یا نہیں؟ رسول اللہ  کو مانتے ہو یا نہیں؟ قرآن کو مانتے ہو یا نہیں؟ یا محض اپنی عقل کو مانتے ہو؟ اگر تم مسلمان ہو ‘ مؤمن ہو تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول  کے حکم پر سر ِتسلیم خم کرو: وَمَا اٰتٰـٹکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰـٹکُمْ عَنْہُ فَانْـتَھُوْا :   (الحشر: ۷) «جو کچھ رسول تمہیں دیں اسے لے لو اور جس چیز سے روک دیں اس سے رک جاؤ»۔  یہ تو شریعت کا معاملہ ہے۔  ویسے معاشیات کے اعتبار سے اس میں یہ فرق واقع ہوتا ہے کہ ایک ہے fluid capital اور ایک ہے fixed capital ۔  جہاں تک مکان کا معاملہ ہے تو وہ fixed capital ہے۔  دس لاکھ روپے کے مکان میں جو شخص رہ رہا ہے وہ اس سے کیا فائدہ اٹھائے گا؟  وہ اس میں رہائش اختیار کرے گا اور اس کے عوض ماہانہ کرایہ ادا کرے گا۔  اس کے بر عکس اگر آپ نے دس لاکھ روپے کسی کو نقد دے دیے تو وہ انہیں کسی کام میں لگائے گا۔  اس میں یہ بھی امکان ہے کہ دس لاکھ کے بارہ لاکھ یا پندرہ لاکھ بن جائیں اور یہ بھی کہ آٹھ لاکھ رہ جائیں۔  چنانچہ اس صورت میں اگر آپ نے پہلے سے طے شدہ (fix) منافع وصول کیا تو یہ حرام ہو جائے گا۔  تو ان دونوں میں کوئی مناسبت نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے عقلی جواب نہیں دیا ۔  جواب دیا کہ «اللہ نے بیع کو حلال ٹھہرایا ہے اور ربا کو حرام۔ »

             فَمَنْ جَآءَہ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہ فَانْتَہٰی فَلَہ مَا سَلَفَ :   «تو جس شخص کے پاس اس کے ربّ کی طرف سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ باز آ گیا تو جو کچھ وہ پہلے لے چکا ہے وہ اس کا ہے۔ »

            وہ اُس سے واپس نہیں لیا جائے گا۔  حساب کتاب نہیں کیا جائے گا کہ تم اتنا سود کھاچکے ہو‘ واپس کرو۔  لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اس پر اس کا کوئی گناہ نہیں ہو گا۔

             وَاَمْرُہ اِلَی اللّٰہِ :   «اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ »

            اللہ تعالیٰ چاہے گا تو معاف کر دے گا اور چاہے گا تو پچھلے سود پر بھی سرزنش ہو گی۔

             وَمَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ  فِیْہَا خٰلِدُوْنَ :   «اور جس نے (اس نصیحت کے آ جانے کے بعد بھی) دوبارہ یہ حرکت کی تو یہ لوگ جہنمی ہیں‘ وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔» 

UP
X
<>