May 19, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 44

أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ

کیا تم (دوسرے) لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہواور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو! کیا تمہیں اتنی بھی سمجھ نہیں ؟

آیت 44:  اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ:  کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟

            ان آیات کے اصل مخاطب علماء یہود ہیں ، جو لوگوں کو تقویٰ اور پارسائی کی تعلیم  دیتے تھے لیکن ان کا اپنا کردار اس کے برعکس تھا۔ ہمارے ہاں بھی علماء اور واعظین کا حال اکثر و بیشتر یہی ہے کہ اونچے سے اونچا وعظ کہیں گے ، اعلیٰ سے اعلیٰ بات کہیں گے ، لیکن ان کے اپنے کردار کو اُس بات سے کوئی مناسبت ہی نہیں ہوتی جس کی وہ لوگوں کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔  یہی درحقیقت علمائِ یہود کا کردار بن چکا تھا۔ چنانچہ ان سے کہا گیا کہ  کیا تم لوگوں کو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو مگر خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟

              وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ:  حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو۔

            تم یہ کچھ کر رہے ہو اس حال میں کہ تم اللہ کی کتاب بھی پڑھتے ہو ۔ یعنی تورات پڑھتے ہو، تم صاحب ِتورات ہو۔ ہمارے ہاں بھی بہت سے علماء کا، جنہیں ہم علمائِ سوء کہتے ہیں ، یہی حال ہو چکا ہے۔ بقول اقبال: 

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!

            قرآن حکیم کے ترجمے میں، اس کے مفہوم میں، اس کی تفسیر میں بڑی بڑی تحریفیں موجود ہیں۔ الحمد للہ کہ اس کا متن بچا ہوا ہے۔ اس لیے کہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے۔

              اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ:  کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے؟ 

UP
X
<>