May 19, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 45

وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ

اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو نماز بھاری ضرورمعلوم ہوتی ہے مگر ان لوگوں کو نہیں جو خشوع (یعنی دھیان اور عاجزی) سے پڑھتے ہیں

آیت ۴۵:   وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ: اور مدد حاصل کرو صبر سے اور نماز سے۔   

            یہاں پر صبر کا لفظ بہت با معنی ہے ۔ علماء سوء کیوں وجود میں آتے ہیں؟ جب وہ صبر اور قناعت کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں، تو حب مال ان کے دل میں گھر کر لیتی ہے اور وہ دنیا کے ُکتے ّبن جاتے ہیں۔ پھر وہ دین کو بد نام کرنے والے ہوتے ہیں۔ بظاہر دینی مراسم کے پابند نظر آتے ہیں لیکن دراصل ان کے پردے میں دنیا داری کا معاملہ ہوتا ہے۔  چنانچہ انہیں صبر کی تاکید کی جا رہی ہے۔ سورۃ المائدۃ میں یہود کے علماء و مشائخ پر بایں الفاظ تنقید کی گئی ہے: لَوْلاَ یَنْہٰہُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِہِمُ الْاِثْمَ وَاَکْلِہِمُ السُّحْتَ. (المائدۃ: 43) «کیوں نہیں روکتے انہیں ان کے علماء اور صوفیاء جھوٹ بولنے سے اور حرام کھانے سے؟»  اگر کوئی عالم  یا پیر اپنے ارادت مندوں کو ان چیزوں سے روکے گا تو پھر اس کو نذرانے تو نہیں ملیں گے ، اس کی خدمتیں تو نہیں ہوں گی۔  چنانچہ اگر تو دنیا میں صبر اختیار کرنا ہے  تب تو آپ حق بات کہہ سکتے ہیں ، اور اگر دُنیوی خواہشات (ambitions) مقدم ہیں تو پھر آپ کو کہیں نہ کہیں سمجھوتا (compromise) کرنا پڑے گا۔

            صبر کے ساتھ جس دوسری شے کی تاکید کی گئی وہ نماز ہے۔ علماء یہود وضوحِ حق کے باوجود جو محمد رسول اللہ  پر ایمان نہ لاتے تھے اس کی بڑی وجہ حب مال اور حب جاہ تھی۔ یہاں دونوں کا علاج بتا دیا گیا کہ حب  مال کا مداوا صبر سے ہو گا ، جبکہ نماز سے عبودیت و تذلل پیدا ہو گا اور حب جاہ کا خاتمہ ہو گا۔ ّ   َ

             وَاِنَّہَا لَــکَبِیْرَۃٌ:  اور یقینا یہ بہت بھاری شے ہے  

            عام طور پر یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ  «اِنَّـہَا» کی ضمیر صرف صلوٰۃ کے لیے ہے۔ یعنی نماز بہت بھاری اور مشکل کام ہے۔ لیکن ایک رائے یہ ہے کہ یہ درحقیقت اس پورے طرزِ عمل کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا کے شدائد اور ابتلاءات کا مقابلہ صبر اور نماز کی مدد سے کیا جائے۔ مطلوب طرزِ عمل یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کے متعلقات میں کم سے کم پر قانع ہو جاؤ اور حق کا بول بالا کرنے کے لیے میدان میں آ جاؤ۔ اس کے ساتھ ساتھ نماز کو اپنے معمولاتِ حیات کا محور بناؤ ، جو کہ عماد الدّین  ہے۔  فرمایا کہ یہ روش یقینا بہت بھاری ہے  ، اور نماز بھی بہت بھاری ہے۔

             اِلاَّ عَلَی الْخٰشِعِیْنَ:  مگر اُن عاجزوں پر (بھاری نہیں ہے)۔

            اُن خشوع رکھنے والوں پر ، اُن ڈرنے والوں پر یہ روش بھاری نہیں ہے جن کے دل اللہ کے آگے جھک گئے ہیں۔ 

UP
X
<>