May 19, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 47

يَابَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ

اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تم کو عطا کی تھی اور یہ بات (یاد کرو) کہ میں نے تم کو سارے جہانوں پر فضیلت دی تھی

جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے سورۃ البقرۃ کے پانچویں رکوع سے چودہویں رکوع تک ، بلکہ پندرہویں رکوع کی پہلی دو آیات بھی شامل کر لیجیے ، یہ دس رکوعوں سے دو آیات زائد ہیں کہ جن میں خطاب کل کا کل بنی اسرائیل سے ہے۔ البتہ ان میں سے پہلا رکوع دعوت پر مشتمل ہے ، جس میں انہیں نبی کریم  پر ایمان لانے کی پرزور دعوت دی گئی ہے ، جبکہ بقیہ نو رکوع اُس فردِ قراردادِ جرم پر مشتمل ہیں جو بنی اسرائیل پر عائد کی جا رہی ہے کہ ہم نے تمہارے ساتھ یہ احسان و اکرام کیا ، تم پر یہ فضل کیا ، تم پر یہ کرم کیا ، تمہیں یہ حیثیت دی ، تمہیں یہ مقام دیا اور تم نے اس اس طور سے اپنے اس مشن کی خلاف ورزی کی جو تمہارے سپرد کیا گیا تھا اور اپنے مقام و مرتبہ کو چھوڑ کر دُنیا پرستی کی روش اختیار کی۔ ان نو رکوعوں میں بنی اسرائیل کی تاریخ کا تو ایک بہت بڑا حصہ ّاُس کے خد و خال (features) سمیت آ گیا ہے ، لیکن اصل میں یہ اُمت ِمسلمہ کے لیے بھی ایک پیشگی تنبیہ ہے کہ کوئی مسلمان اُمت جب بگڑتی ہے تو اُس میں یہ اور یہ خرابیاں آ جاتی ہیں۔ چنانچہ اس بارے میں رسول اللہ  کی احادیث بھی موجود ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا:

((لَـیَاْتِیَنَّ عَلٰی اُمَّتِیْ مَا اَتٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ حَذْوَ النَّعْلَ بِالنَّعْلِ))

 «میری اُمت پر بھی وہ سب حالات وارد ہو کر رہیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے تھے ، بالکل ایسے جیسے ایک جوتی دوسری جوتی سے مشابہ ہوتی ہے»۔   

            ایک دوسری حدیث میں جو حضرت ابوسعید خدری سے مروی ہے ، رسول اللہ  کا ارشاد نقل ہوا ہے:

((لَـتَـتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَـکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتّٰی لَــوْ سَلَـکُوْا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَـکْتُمُوْہُ)) قُلْنَا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ الْـیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی؟ قَالَ : ((فَمَنْ؟))  

 «تم لازماً اپنے سے پہلوں کے طور طریقوں کی پیروی کرو گے ، بالشت کے مقابلے میں بالشت اور ہاتھ کے مقابلے میں ہاتھ۔ یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھسے ہوں گے تو تم بھی گھس کر رہو گے»۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہود و نصاریٰ کی؟ آپ نے فرمایا: « تو اور کس کی؟»

            ترمذی کی مذکورہ بالا حدیث میں تو یہاں تک الفاظ آتے ہیں کہ: ((حَتّٰی اِنْ کَانَ مِنْھُمْ مَّنْ اَتٰی اُمَّــہ عَلَانِیَۃً لَــکَانَ فِیْ اُمَّتِیْ مَنْ یَصْنَعُ ذٰلِکَ)) «یعنی اگر اُن میں کوئی بدبخت ایسا اٹھا ہو گا جس نے اپنی ماں سے علی الاعلان زنا کیا تھا تو تم میں سے بھی کوئی شقی ایسا ضرور اٹھے گا جو یہ حرکت کرے گا»۔ اس اعتبار سے اِن رکوعوں کو پڑھتے ہوئے یہ نہ سمجھئے کہ یہ محض اَگلوں کی داستان ہے ، بلکہ :  ّ  َ

 خوشتر آں باشد کہ سر دلبراں  گفتہ آید در حدیث دیگراں .

کے مصداق یہ ہمارے لیے ایک آئینہ ہے اور ہمیں ہر مرحلے پر سوچنا ہو گا ، دروں بینی کرنی ہو گی کہ کہیں اسی گمراہی میں ہم بھی تو مبتلا نہیں؟

            دوسرا اہم نکتہ پہلے سے ہی یہ سمجھ لیجیے کہ سورۃ البقرۃ کی آیات 47،48 جن سے اس چھٹے رکوع کا آغاز ہو رہا ہے ، یہ دو آیتیں بعینہٖ پندرہویں رکوع کے آغاز میں پھر آئیں گی۔ ان میں سے پہلی آیت میں تو شوشے بھر کا فرق بھی نہیں ہے ، جبکہ دوسری آیت میں صرف الفاظ کی ترتیب بدلی ہے ، مضمون وہی ہے۔یوں سمجھئے کہ یہ گویا دو بریکٹ ہیں اور نو (۹) رکوعوں کے مضامین ان دو بریکٹوں کے درمیان ہیں۔ اور سورۃ البقرۃ کا پانچواں رکوع جو اِن بریکٹوں سے باہر ہے ، اس کے مضامین بریکٹوں کے اندر کے سارے مضامین سے ضرب کھا رہے ہیں۔ یہ حساب کا بہت ہی عام فہم سا قاعدہ ہے کہ بریکٹ کے باہر لکھی ہوئی رقم ، جس کے بعد جمع یا تفریق وغیرہ کی کوئی علامت نہ ہو ، وہ بریکٹ کے اندر موجود تمام اقدار (values) کے ساتھ ضرب کھائے گی۔ تو گویا اس پورے معاملے میں ہر ہر قدم پر رسول اللہ  پر ایمان لانے کی دعوت موجود ہے۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ اس حصے میں بعض آیات ایسی آ گئی ہیں جن سے کچھ لوگوں کو مغالطہ پیدا ہوا یا جن سے کچھ لوگوں نے جان بوجھ کر فتنہ پیدا کیا کہ نجاتِ اُخروی کے لیے محمد رسول اللہ   پر ایمان ضروری نہیں ہے۔اس فتنے نے ایک بار اکبر کے زمانے میں  «دین ِالٰہی»  کی شکل میں جنم لیا تھا کہ آخرت میں نجات کے لیے صرف خدا کو مان لینا ، آخرت کو مان لینا اور نیک اعمال کرنا کافی ہے ، کسی رسول پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے۔ یہ فتنہ صوفیاء میں بھی بہت بڑے پیمانے پر پھیلا اور  مسجد مندر ( ہکڑو نور )  کے فلسفے کی تشہیر کی گئی۔ یعنی مسجد میں اور مندر میں ایک ہی نور ہے ، سب مذاہب اصل میں ایک ہی ہیں ، سارا فرق شریعتوں کا اور عبادات کی ظاہری شکل کا ہے۔ اور وہ رسولوں سے متعلق ہے۔ چنانچہ رسولوں کو بیچ میں سے نکال دیجیے تو یہ  دین ِالٰہی )  (اللہ کا دین) رہ جائے گا۔ یہ ایک بہت بڑا فتنہ تھا جو ہندوستان میں اُس وقت اٹھا جب سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کا اقتدار چوٹی (climax)پر تھا۔ یہ فتنہ جس مسلمان حکمران کا اٹھایا ہوا تھا وہ   اکبر اعظم )  اور  مغل اعظم )  کہلاتا تھا۔ اس کے پیش کردہ  دین )  کا فلسفہ یہ تھا کہ دین ِمحمدی  کا دَور ختم ہو گیا (نعوذ باللہ)  ،وہ ایک ہزار سال کے لیے تھا ، اب دوسرا ہزار سال (الف ثانی) ہے اور اس کے لیے نیا دین ہے۔ اُسے  دین ِاکبری )  بھی کہا گیا اور  دین ِالٰہی )  بھی۔ سورۃ البقرۃ کے اس حصے میں ایک آیت آئے گی جس سے کچھ لوگوں نے اس  دین ِالٰہی )  کے لیے استدلال کیا تھا۔

            ہندوستان میں بیسویں صدی میں یہ فتنہ پھر اٹھا جب گاندھی جی نے  متحدہ وطنی قومیت )  کا نظریہ پیش کیا۔ اس موقع پر مسلمانوں میں سے ایک بہت بڑا نابغہ (genius) انسان ابوالکلام آزاد بھی اس فتنے کا شکارہو گیا۔ گاندھی جی اپنی پرارتھنا میں کچھ قرآن کی تلاوت بھی کرواتے ، کچھ گیتا بھی پڑھواتے ، کچھ اُپنشدوں سے ، کچھ بائبل سے اور کچھ گُروگرنتھ سے بھی استفادہ کیا جاتا۔ متحدہ وطنی قومیت کا تصور یہ تھا کہ ایک وطن کے رہنے والے لوگ ایک قوم ہیں ، لہٰذا ان سب کو ایک ہونا چاہیے ، مذہب تو انفرادی معاملہ ہے ، کوئی مسجد میں چلا جائے ، کوئی مندر میں چلا جائے ، کوئی گُردوارے میں چلا جائے ، کوئی کلیسا ، سنیگاگ یا چرچ میں چلا جائے تو اس سے کیا فرق واقع ہوتا ہے؟ اس طرح کے نظریات اور تصورات کا توڑ یہی ہے کہ یوں سمجھ لیجیے کہ پانچویں رکوع کی سات آیات بریکٹ کے باہر ہیں اور یہ بریکٹوں کے اندر کے مضمون سے مسلسل ضرب کھا رہی ہیں۔ چنانچہ ان بریکٹوں کے درمیان جتنا بھی مضمون آ رہا ہے وہ ان کے تابع ہو گا۔ گویا جہاں تک محمد رسول اللہ  پر ایمان لانے کا معاملہ ہے وہ ہر مرحلے پر مقدر (understood) سمجھا جائے گا۔ اب ہم ان آیات کا مطالعہ شروع کرتے ہیں۔

آیت 47:   یٰــبَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ:  اے یعقوب کی اولاد! یاد کرو میرے اُس انعام کو جو میں نے تم پرکیا ،

            اس کی وضاحت گذشتہ رکوع میں ہو چکی ہے ، لیکن یہاں آگے جو الفاظ آ رہے ہیں بہت زور دار ہیں:

             وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ:  اور یہ کہ میں نے تمہیں فضیلت عطا کی تمام جہانوں پر۔

            عربی نحو کا یہ قاعدہ ہے کہ کہیں ظرف کا تذکرہ ہوتا ہے (یعنی جس میں کوئی شے ہے) لیکن اس سے مراد مظروف ہوتا ہے (یعنی ظرف کے اندر جو شے ہے)۔  یہاں بھی ظرف کی جمع لائی گئی ہے لیکن اس سے مظروف کی جمع مراد ہے۔  «تما م جہانوں پر فضیلت»  سے مراد:  «جہان والوں پر فضیلت»  ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے تمہیں تمام اقوامِ عالم پر فضیلت عطا کی۔ عالمِ انسانیت کے اندر جتنے بھی مختلف گروہ ، نسلیں اور طبقات ہیں اُن میں فضیلت عطا کی۔

UP
X
<>