May 19, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 48

وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ

اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی شخص بھی کسی کے کچھ کام نہیں آئے گا نہ کسی سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی نہ کسی سے کسی قسم کا فدیہ لیا جائے گا اور نہ ان کو کوئی مدد پہنچے گی

 آیت 48:     وَاتَّقُوْا یَوْماً لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا:  اور ڈرو اُس دن سے کہ جس دن کام نہ آ سکے گی کوئی جان کسی دوسری جان کے کچھ بھی ،

            قبل ازیں یہ بات عرض کی جا چکی ہے کہ انسان کے عمل کے اعتبار سے سب سے مؤثر ّشے ایمان بالآخرۃ ہے۔ محاسبہ ٔآخرت اگر مستحضر رہے گا تو انسان سیدھا رہے گا ، اور اگر اس میں ضعف آ جائے تو ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت بھی نه معلوم کیا کیا شکلیں اختیار کر لیں۔ اس آیت کے اندر چار اعتبارات سے محاسبہ ٔاُخروی پر زور دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے فرمایا کہ ڈرو اُس دن سے جس دن کوئی جان کسی دوسری جان کے کچھ بھی کام نہ آسکے گی۔

             وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ:  اور نہ کسی سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی، 

              وَّلاَ یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ:  اور نہ کسی سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا، 

             وَّلاَ ہُمْ یُنْصَرُوْنَ:  اور نہ انہیں کوئی مدد مل سکے گی. 

            ایمان بالآخرت کے ضمن میں لوگوں نے طرح طرح کے عقیدے گھڑ رکھے ہیں ، جن میں شفاعت ِباطلہ کا تصور ّبھی ہے۔ اہل عرب سمجھتے تھے کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں۔ انہوں نے لات ، منات اور عزیٰ وغیرہ کے نام سے اُن کے بت ُبنا رکھے تھے ، جنہیں وہ پوجتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ کی یہ لاڈلی بیٹیاں ہمیں اپنے  «ابا جان»  سے چھڑا لیں گی۔ (نعوذ باللّٰہ من ذٰلک!)

ہمارے ہاں بھی شفاعت ِباطلہ کا تصور موجود ہے کہ اولیاء اللہ ہمیں چھڑالیں گے۔ خود رسول اللہ  کی شفاعت کے بارے میں غلط تصورات موجود ہیں۔ ایک شفاعت حقہ ہے ، جو بر حق ہے ، اس کی وضاحت کا یہ موقع نہیں ہے۔اسی سورئہ مبارکہ میں جب ہم آیت الکرسی کا مطالعہ کریں گے تو اِن شاء اللہ اس کی وضاحت بھی ہو گی۔ یہ سارے تصورات اور خیالات جو ہم نے گھڑ رکھے ہیں ، ان کی نفی اس آیت کے اندر دو ٹوک انداز میں کر دی گئی ہے۔   ّ  َ

            اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل پر جو احسانات و انعامات ہوئے اور ان کی طرف سے جو نا شکریاں ہوئیں ان کا تذکرہ بڑی تیزی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ واقعات کئی سو برس پر محیط ہیں اور ان کی تفصیل مکی سورتوں میں آ گئی ہے۔ ان واقعات کی سب سے زیادہ تفصیل سورۃ الاعراف میں موجودہے۔ یہاں پر تو واقعات کا پے بہ پے تذکرہ کیا جا رہا ہے ، جیسے کسی ملزم پر فردِ قراردادِ جرم عائد کی جاتی ہے تو اُس میں سب کچھ گنوایا جاتا ہے کہ تم نے یہ کیا ، یہ کیا اور یہ کیا۔ 

UP
X
<>