May 19, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 54

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَاقَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ عِنْدَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ : ’’ اے میری قوم ! حقیقت میں تم نے بچھڑے کو معبو د بنا کر خود اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے لہٰذا اب اپنے خالق سے توبہ کر و اور اپنے آپ کو قتل کرو۔ تمہارے خالق کے نزدیک یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ ‘‘ اس طرح اﷲ نے تمہاری توبہ قبول کرلی۔ بے شک وہی ہے جومعاف کرنے والا، اتنا رحم کرنے والا ہے

آیت 54:     وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہ:  اور یاد کرو جبکہ کہا تھا موسٰی    نے اپنی قوم سے:

 یٰـقَوْمِ اِنَّــکُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ:  اے میری قوم کے لوگو! یقینا تم نے اپنے اوپر بڑا ظلم کیا ہے بچھڑے کو معبود بنا کر ،

              فَتُوْبُوْآ اِلٰی بَارِئِکُمْ :  پس اب توبہ کرو اپنے پیدا کرنے والے کی جناب میں  

             فَاقْتُلُوْا  اَنْفُسَکُمْ:  تو قتل کرو اپنے آپ کو۔    

            یہ واقعہ تورات میں تفصیل سے آیا ہے ، قرآن میں اس کی تفصیل مذکور نہیں ہے۔  بہت سے واقعات جن کا قرآن میں اجمالاً ذکر ہے ان کی تفصیل کے لیے ہمیں تورات سے رجوع کرنا پڑتا ہے ، ورنہ بعض آیات کا صحیح صحیح مفہوم واضح نہیں ہوتا۔  یہاں الفاظ آئے ہیں:  فَاقْتُلُوْا  اَنْفُسَکُمْ :  «مار ڈالو اپنی جانیں   یا  قتل کرو اپنے آپ  کو»۔  اس کے کیا معنی ہیں؟ یہ دراصل قتل ِمرتد کی سزا ہے۔  بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے۔  ہر قبیلے میں سے کچھ لوگوں نے یہ کفر اور شرک کیا کہ بچھڑے کو معبود بنا لیا ، باقی لوگوں نے ایسا نہیں کیا۔  بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ ہر قبیلے کے وہ لوگ جو اس شرک میں ملوث نہیں ہوئے اپنے اپنے قبیلے کے ان لوگوں کو قتل کریں جو اس کفر و شرک کے مرتکب ہوئے۔   فَاقْتُلُوْا  اَنْفُسَکُمْ  سے مراد یہ ہے کہ تم اپنے قبیلے کے لوگوں کو قتل کرو۔  اس لیے کہ قبائلی زندگی بڑی حساس ّہوتی ہے اور کسی دوسرے قبیلے کی مداخلت سے قبائلی عصبیت ّبھڑک اٹھنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔  حضرت موسیٰ  کے اس حکم پر عمل درآمد کے نتیجے میں ّستر ہزار یہودی قتل ہوئے۔  اس سے بڑی توبہ اور اس سے بڑی تطہیر (purge) ممکن نہیں ہے۔  کسی بھی نظریاتی جماعت کے اندر تزکیہ اور تطہیر کا عمل بہت ضروری ہوتا ہے۔  کچھ لوگ ایک نظریے کو قبول کر کے جماعت سے وابستہ ہو جاتے ہیں ، لیکن رفتہ رفتہ نظریہ اوجھل ہو جاتا ہے اور اپنے مفادات اور چودھراہٹیں مقدم ّہو جاتی ہیں۔  اسی سے جماعتیں خراب ہوتی ہیں اور غلط  راستے پر پڑ جاتی ہیں۔  چنانچہ نظریاتی جماعتوں میں یہ عمل بہت ضروری ہوتا ہے کہ جو افراد نظریے سے منحرف ہو جائیں ان کو جماعت سے کاٹ کر علیحدہ کر دیا جائے۔  

            قرآن حکیم کے اس مقام سے قتل ِمرتد کی سزا ثابت ہوتی ہے ، جبکہ قتل ِمرتد کا واضح حکم حدیث ِنبوی میں موجود ہے۔  ہمارے بعض جدید دانشور اسلام میں قتل مرتد کی حد کو تسلیم نہیں کرتے ، لیکن میرے نزدیک یہ شریعت موسوی   کا تسلسل ہے۔  شریعت موسوی   کے جن احکام کے بارے میں صراحتاً یہ معلوم نہیں کہ انہیں تبدیل کر دیا گیا ہے وہ شریعت محمدی  کا جزو بن گئے ہیں۔  شادی شدہ زانی پر حد ِرجم کا معاملہ بھی یہی ہے۔  قرآن مجید میں حد ِرجم کی کوئی صریح آیت موجود نہیں ہے ، لیکن احادیث میں یہ سزا موجود ہے۔  اسی طرح قرآن مجید میں مرتد کے قتل کی کوئی صریح آیت موجود نہیں ہے ، لیکن یہ حدیث اور سنت سے ثابت ہے۔  البتہ ان دونوں سزاؤں کا منبع اور ماخذ دراصل تورات ہے۔  اس اعتبار سے قرآن حکیم کا یہ مقام بہت اہم ہے ، لیکن اکثر لوگ یہاں سے بہت سرسری طور پر گزر جاتے ہیں۔    ّ   َ

            بنی اسرائیل جب مصر سے نکلے تو ان کی تعداد چھ لاکھ تھی ۔  جزیرہ نمائے سینا پہنچنے کے بعد ان کی تعداد مزید بڑھ گئی ہو گی۔  اُن میں سے ستر ّہزار افراد کو شرک کی پاداش میں قتل کیا گیا ، اور ہر قبیلے نے جو اپنے مرتد تھے ان کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔

             ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّــکُمْ عِنْدَ بَارِئِکُمْ:   یہی تمہارے لیے تمہارے ربّ کے نزدیک بہتر بات ہے۔    

             فَـتَابَ عَلَیْـکُمْ:  تو (اللہ نے) تمہاری توبہ قبول کر لی۔    

            بنی اسرائیل کی توبہ اس طرح قبول ہوئی کہ اُمت کا تزکیہ ہوا اور ان میں سے جن لوگوں نے اتنی بڑی غلط حرکت کی تھی ان کو ذبح کر کے ، قتل کر کے اُمت سے کاٹ کر پھینک دیا گیا۔

             اِنَّـہ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ: یقینا وہ تو ہے ہی توبہ کا بہت قبول فرمانے والا ، بہت رحم فرمانے والا ۔    

UP
X
<>