May 19, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 55

وَإِذْ قُلْتُمْ يَامُوسَى لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ

اور جب تم نے کہا تھا : ’’ اے موسیٰ ! ہم اس وقت تک ہر گز تمہارا یقین نہیں کریں گے جب تک اﷲ کو ہم خود کھلی آنکھوں نہ دیکھ لیں ۔‘‘ نتیجہ یہ ہوا کہ کڑکے نے تمہیں اس طرح آپکڑا کہ تم دیکھتے رہ گئے

آیت 55:     وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَـرَی اللّٰہَ جَہْرَۃً:  اور یاد کرو جبکہ تم نے کہا تھا اے موسٰی! ہم تمہارا ہرگز یقین نہیں کریں گے جب تک ہم اللہ کو سامنے نہ دیکھ لیں،

            اٰمَنَ یُؤْمِنُ کے بعد  «بِ»  کا صلہ ہو تو اس کے معنی ایمان لانے کے ہوتے ہیں ، جبکہ  «لِ»  کے صلہ کے ساتھ اس کے معنی صرف تصدیق کے ہوتے ہیں۔   بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ  سے کہا تھا کہ ہم آپ کی بات کی تصدیق نہیں کریں گے جب تک ہم اپنی آنکھوں سے اللہ کو آپ سے کلام کرتے نہ دیکھ لیں۔   ہم کیسے یقین کر لیں کہ اللہ نے یہ کتاب آپ کو دی ہے؟ آپ   تو ہمارے سامنے پتھر کی کچھ تختیاں لے کر آ گئے ہیں جن پر کچھ لکھا ہوا ہے ۔   ہمیں کیا پتا کہ یہ کس نے لکھا ہے؟ دیکھئے ، ایک خواہش حضرت موسٰی  کی بھی تھی کہ رَبِّ اَرِنِیْ اَنْظُرْ اِلَـیْکَ. (الاعراف: 143) «اے میرے ربّ! مجھے یارائے نظر دے کہ میں تجھ کو دیکھوں»۔   وہ کچھ اور شے تھی ، وہ  تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ!  کی کیفیت تھی ، لیکن یہ تخریبی ذہن کی سوچ ہے کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور ہمیں معلوم ہو کہ واقعی اُس نے آپ کو یہ کتاب دی ہے ۔ 

             فَاَخَذَتْـکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ:  تو تمہیں آ پکڑا ایک بہت بڑی کڑک نے اور تم دیکھ رہے تھے ۔

            تمہارے دیکھتے دیکھتے ایک بہت بڑی کڑک نے تمہیں آ لیا اور تم سب کے سب ُمردہ ہو گئے۔ 

UP
X
<>