May 19, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 58

وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ

اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے کہا تھا کہ : ’’ اس بستی میں داخل ہو جاؤاور اس میں جہاں سے چاہو جی بھر کر کھاؤ اور (بستی کے) دروازے میں جھکے سروں کے ساتھ داخل ہونا اور یہ کہتے جانا کہ (یا اﷲ!) ہم آپ کی بخشش کے طلب گار ہیں ۔ (اس طرح) ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ (ثواب) بھی دیں گے۔‘‘

  آیت 58:    وَاِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا ہٰذِہِ الْقَرْیَۃَ فَکُلُوْا مِنْہَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا:  اور یاد کرو جبکہ ہم نے تم سے کہا تھا کہ داخل ہو جاؤ اس شہر میں اور پھر کھاؤ اس میں سے با فراغت جہاں سے چاہو جو چاہو، 

             وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْ لَــکُمْ خَطٰیٰـکُمْ:  لیکن دیکھنا (بستی کے) دروازے میں داخل ہونا جھک کر اور کہتے رہنا مغفرت مغفرت ، تو ہم تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائیں گے۔    

             وَسَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ:  اور محسنین کو ہم مزید فضل و کرم سے نوازیں گے۔    

            بنی اسرائیل کے صحرائے سینا میں آنے اور تورات عطا  کیے جانے کے بعد حضرت موسیٰ  ہی کے زمانے میں انہیں جہاد اور قتال کا حکم ہوا ، لیکن اس سے پوری قوم  نے انکار کر دیا۔  اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ سزا ّمسلط  کر دی کہ یہ چالیس برس تک اسی صحرا میں بھٹکتے پھریں گے۔  اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر یہ ابھی جہاد اور قتال کرتے تو ہم پورا فلسطین ان کے ہاتھ سے ابھی فتح کرا دیتے ، لیکن چونکہ انہوں نے بزدلی دکھائی ہے لہٰذا اب ان کی سزا یہ ہے: فَاِنَّھَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً  یَـتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ: (المائدۃ: 26) یعنی ارضِ فلسطین جو ان کے لیے ارضِ موعود تھی وہ ان پر چالیس سال کے لیے حرام کر دی گئی ہے ، اب یہ چالیس سال تک اسی صحرا میں بھٹکتے پھریں گے۔  صحرا نوردی کے اس عرصے میں حضرت موسیٰ کا بھی انتقال ہو گیا اور حضرت ہارون  کا بھی۔  اس عرصے میں ایک نئی نسل پیدا ہوئی اور وہ نسل جو مصر سے غلامی کا داغ اٹھائے ہوئے آئی تھی وہ پوری کی پوری ختم ہو گئی۔  غلامی کا یہ اثر ہوتا ہے کہ غلام قوم کے اندر اخلاق و کردار کی کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔  صحرا نوردی کے زمانے میں جو نسل پیدا ہوئی اور صحرا ہی میں پروان چڑھی وہ ایک آزاد  نسل تھی جو اُن کمزوریوں سے پاک تھی اور ان میں ایک جذبہ تھا۔  بنی اسرائیل کی اس نئی نسل نے حضرت موسیٰ  کے خلیفہ یوشع بن نون [تورات میں ان کا نام یشوع (Joshua) آیا ہے] کی قیادت میں قتال کیا اور پہلا شہر جو فتح ہوا وہ  «اریحا»  تھا۔  یہ شہر آج بھی جریکو (Jericho)  کے نام سے موجود ہے۔  

            یہاں پر اس فتح کے بعد کا تذکرہ ہو رہا ہے کہ یاد کرو جبکہ ہم نے تم سے کہا تھا کہ اس شہر میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہو جاؤ اور پھر جو کچھ نعمتیں یہاں ہیں ان سے متمتع ّہو ، خوب کھاؤ پیو ، لیکن شہر کے دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا۔ مراد یہ ہے کہ جھک کر ، سجدئہ شکر بجا لاتے ہوئے داخل ہونا۔  ایسا نہ ہو کہ تکبر کی وجہ سے تمہاری گردنیں اکڑ جائیں۔  اللہ کا احسان مانتے ہوئے گردنیں جھکا کر داخل ہونا۔  یہ نہ سمجھنا کہ یہ فتح تم نے بزورِ بازو حاصل کی ہے۔  اس کا نقشہ ہمیں ٌمحمد رسول اللہ  کی شخصیت میں نظر آتا ہے کہ جب فتح مکہ کے موقع پر آپ مکہ میں داخل ہوئے تو جس سواری پر آپ  بیٹھے ہوئے تھے آپ کی پیشانی مبارک اس کی گردن کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔  یہ وقت ہوتا ہے جبکہ ایک فاتح تکبر ّاور تعلّی کا مظاہرہ کرتا ہے ، لیکن بندئہ مؤمن کے لیے یہی وقت تواضع کا اور جھکنے کا ہے۔

            اس کے ساتھ ہی انہیں حکم دیا گیا: وََقُوْلُوْا حِطَّۃٌ:  «اور کہتے جاؤ مغفرت مغفرت »۔  حِطَّۃٌ کا وزن  فِعْلَۃٌ اور مادہ  (ح ط ط )  ہے۔   حَطَّ یَحُطُّ حَطًّا کے متعدد معنی ہیں ، جن میں سے ایک ( پتے جھاڑنا )  ہے۔  مثلاً کہیں گے حَطَّ وَرَقَ الشَّجَرِ «اُس نے درخت کے ّپتے جھاڑ دیے» ۔  حِطَّـۃٌ  کے معنی:  (استغفار ، طلب مغفرت اور توبہ )  کے کیے جاتے ہیں۔  گویا اس میں گناہوں کو جھاڑ دینے اور خطاؤں کو معاف کر دینے کا مفہوم ہے۔  چنانچہ ( وَقُوْلُوْا حِطَّۃٌ )  کا مفہوم یہ ہو گا کہ مفتوح بستی میں داخل ہوتے وقت جہاں تمہاری گردنیں عاجزی کے ساتھ جھکی ہونی چاہئیں وہیں تمہاری زبان پر بھی استغفار ہونا چاہیے کہ اے اللہ ہمارے گناہ جھاڑ دے ، ہماری مغفرت فرما دے ، ہماری خطاؤں کو بخش دے! اگر تم ہمارے اس حکم پر عمل کرو گے تو ہم تمہاری خطائیں معاف فرما دیں گے ، اور تم میں جو محسن اور نیکو کار ہوں گے انہیں مزید فضل و کرم اور انعام و اکرام سے نوازیں گے۔ 

UP
X
<>