May 19, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 59

فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ

مگر ہو ا یہ کہ جو بات ان سے کہی گئی تھی ظالموں نے اسے بدل کر ایک اور بات بنالی ۔ نتیجہ یہ کہ جو نافرمانیاں وہ کرتے آرہے تھے ہم نے ان کی سزا میں ان ظالموں پر آسمان سے عذاب نازل کیا

آیت 59:    فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلاً غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَہُمْ:  پھر بدل  ڈالا ظالموں نے بات کو خلاف اس کے جو اُن سے کہہ دی گئی تھی ،

            ان میں سے جو ظالم تھے  ، بدکردار تھے انہوں نے ایک اور قول اختیار کر لیا اُس قول کی جگہ جو اُن سے کہا گیا تھا۔  ان سے کہا گیا تھا کہ  ( حِطَّۃٌ حِطَّۃٌ )  کہتے ہوئے داخل ہونا  ، لیکن انہوں نے اس کی بجائے ( حِنْطَۃٌ حِنْطَۃٌ )  کہنا شروع کر دیا ، یعنی ہمیں تو گیہوں چاہیے ، گیہوں چاہیے! اگلے رکوع میں یہ بات آ جائے گی کہ «مَنّ و سلویٰ» کھاتے کھاتے بنی اسرائیل کی طبیعتیں بھر گئی تھیں ، ایک ہی چیز کھا کھا کر وہ اُکتا گئے تھے اور اب وہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں زمین کی روئیدگی اور پیداوار میں سے کوئی چیز کھانے کو ملنی چاہیے۔  اس خواہش کا اظہار اُن کی زبانوں پر  ( حِنْطَۃٌ حِنْطَۃٌ )  کی صورت میں آ گیا۔  اس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا استہزاء و تمسخر کیا جو انہیں  «وَقُوْلُوْا حِطَّۃٌ» کے الفاظ میں دیا گیا تھا۔  اسی طرح شہر میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہونے کی بجائے انہوں نے اپنے سرینوں پر پھسلنا شروع کیا۔

             فَاَنْزَلْنَا عَلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ:  پھر ہم نے اتارا ظلم کرنے والوں پر ایک بڑا عذاب آسمان سے ،  

            جن ظالموں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کا استہزاء و تمسخر کیا تھا اُن پر آسمان سے ایک بہت بڑا عذاب نازل ہوا۔  تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ اریحا شہر میں پہنچنے کے بعد انہیں طاعون کی وبا نے آ لیا اور جنہوں نے یہ حرکت کی تھی وہ سب کے سب ہلاک ہو گئے۔

             بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ:  بسبب اُس نا فرمانی کے جو انہوں نے کی۔    

            یہ اُن نافرمانیوں اور حکم عدولیوں کی سزا تھی جو وہ کر رہے تھے۔ 

UP
X
<>