May 2, 2024

قرآن کریم > طه >surah 20 ayat 115

وَلَقَدْ عَهِدْنَآ اِلٰٓى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا

اور ہم نے اس سے پہلے آدم کو ایک بات کی تاکید کی تھی، پھر اُن سے بھول ہو گئی، اور ہم نے اُن میں عزم نہیں پایا

 آیت ۱۱۵:  وَلَقَدْ عَہِدْنَآ اِلٰٓی اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ:   «اور ہم نے اس سے پہلے آدم سے ایک عہد لیا تھا»

            یعنی مخصوص درخت کے پاس نہ جانے کا عہد، جس کا ذکر قرآن میں متعدد بار ہوا ہے۔

            فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہُ عَزْمًا:   «تو وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں ارادے کی پختگی نہیں پائی۔»

            آیت زیر نظر میں «عزم» کے دو ترجمے کیے گئے ہیں اور دونوں صحیح ہیں۔ ایک ارادے کی پختگی۔ اس لحاظ سے وَلَمْ نَجِدْ لَہُ عَزْمًا کا مفہوم یہ ہو گا کہ ہم نے آدم کے اندر ارادے کی پختگی، ہمت اور عزیمت نہیں پائی۔ وہ اللہ سے کیے گئے اپنے عہد کو نبھا نہ سکے اور اس اعتبار سے انہوں نے کمزوری کا مظاہرہ کیا۔ یہ دراصل انسانی خلقت کے اندر موجود اس کمزوری کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر سورۃ النساء میں اس طرح آیا ہے:    وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا:   کہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔

            اس کا دوسرا ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ ہم نے اس کے اندر (سرکشی کا) ارادہ نہیں پایا۔ یعنی آدم نے جان بوجھ کر اس عہد کی خلاف ورزی نہیں کی تھی۔ ہم نے ان کی نیت میں سرکشی، بغاوت اور نافرمانی کا کوئی ارادہ نہیں دیکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بھول گئے تھے، ان پر نسیان طاری ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے انہیں وقتی طور پر اللہ کا وہ عہد یاد نہیں رہا تھا۔ نسیان دراصل انسان کی ایک فطری کمزوری ہے اور اسی حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ عظیم دعا سکھائی ہے:  رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَـآ اَوْ اَخْطَاْنَا:   (البقرۃ: ۲۸۶) کہ اے ہمارے پروردگار! ہمارا مواخذہ نہ کرنا اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے خطا ہو جائے۔ 

UP
X
<>