May 19, 2024

قرآن کریم > طه >surah 20 ayat 98

إِنَّمَا إِلَهُكُمُ اللَّهُ الَّذِي لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا 

حقیقت میں تم سب کا معبود تو بس ایک ہی اﷲ ہے، جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اُس کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے

 آیت ۹۸:  اِنَّمَآ اِلٰہُکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ:   «حقیقت میں تمہارا معبود تو صرف اللہ ہے، جس کے سوا کوئی اور معبود ہے ہی نہیں۔»

            وَسِعَ کُلَّ شَیْئٍ عِلْمًا:   «اُسے ہر چیز کا علم حاصل ہے۔»

            اسرائیلی قوم کے بگڑے ہوئے عقائد اور ان کی عمومی ذہنیت کی جو تفصیلات ہمیں قرآن سے ملتی ہیں اگر ان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہندو برہمن کی سوچ، ذہنیت اور عقائد کی اس سے بہت قریبی مشابہت نظر آتی ہے۔ اس سلسلے میں میری ذاتی رائے ہے کہ آج سے ساڑھے تین ہزار سال قبل (چودہ سو سال قبل مسیح) کے لگ بھگ جب آریا نسل کے لوگ ہندوستان کی طرف محو ِسفر تھے تو ان کے ساتھ کسی مقام پر کچھ اسرائیلی قبائل بھی شامل ہو گئے تھے۔ یہ تقریباً وہی زمانہ تھا جب مصر سے بنی اسرائیل کا خروج (Exodus) ہوا۔ بنی اسرائیل کی تاریخ میں ان کے کچھ ایسے قبائل کا ذکر ملتا ہے جنہیں وہ اپنے گم شدہ قبائل (The lost tribes of the house of Israel) کہتے ہیں۔ یہ وہ قبائل ہیں جو صحرا میں گم ہو گئے تھے اور ان کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں چلے گئے۔ میرے خیال کے مطابق بنی اسرائیل کے وہ گم شدہ قبائل کسی نہ کسی طرح آریاؤں (آریا لوگ حضرت نوح کے بیٹے حضرت حام کی نسل سے تھے) کے ان گروہوں سے آ ملے تھے جو اس زمانے میں ہندوستان کی طرف کوچ کر رہے تھے اور اس طرح آریاؤں کے ساتھ وہ لوگ بھی ہندوستان میں آ بسے تھے۔ اس سلسلے میں میرا گمان یہ ہے کہ ہندو برہمن انہی اسرائیلیوں کی نسل سے ہیں۔

            میرے اس گمان کی بنیاد ہندوؤں اور اسرائیلیوں کے رسم و رواج اور عقائد میں پائی جانے والی گہری مشابہت ہے۔ مثلاً جس طرح حضرت موسیٰ نے سامری کے بچھڑے کو جلا کر اس کی راکھ کو سمندر میں بہایا تھا، بالکل اسی طرح ہندو اپنے مردوں کو جلا کر ان کی راکھ کو گنگا وغیرہ میں بہاتے ہیں۔ اسرائیلیوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنایا تھا، ہندو بھی مذہبی طور پر گائے کو مقدس مانتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندو روایتی طور پر اپنے لیے وہی شوخ یا زرد گیروا رنگ پسند کرتے ہیں جو قرآن میں بنی اسرائیل کے لیے مخصوص گائے کا رنگ بتایا گیا ہے (البقرہ: ۶۹)۔ پھر سامری کے اچھوت ہو جانے کے تصور کو بھی ہندوؤں نے بعینہ اپنایا اور اس کے تحت اپنے معاشرے کے ایک طبقے کو اچھوت قرار دے ڈالا۔ اسی طرح بنی اسرائیل کے سروں پر پہاڑ کے اٹھائے جانے سے متعلق قرآنی بیان (الاعراف: 171) سے مماثل ہندوؤں میں یہ عقیدہ بھی پایا جاتا ہے کہ ہنومان جی پہاڑ کو اٹھا لائے تھے۔ الغرض اسرائیلیوں اور ہندوؤں کے باہم مشترک عقائد اور رسم و رواج میرے اس خیال کو تقویت دیتے ہیں کہ ہندوستان کے برہمن اسرائیلیوں ہی کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔

            اس سلسلے میں میرا خیال یہ بھی ہے کہ اپنشدز کی تحریروں میں صحف ِابراہیم کے اثرات بھی پائے جاتے ہیں۔ میں نے ایک زمانے میں ان کا مطالعہ کیا تھا تومعلوم ہوا کہ ان کی تحریروں میں توحید کا عنصر بہت زیادہ نمایاں ہے۔ قرآن حکیم میں صحف ِابراہیم اور صحف ِموسی ٰ کا ذکر صراحت کے ساتھ موجود ہے (الاعلیٰ : ۱۹)۔ «صحف ِموسی ٰ» تو عہد نامہ قدیم (Old Testament) کی پہلی پانچ کتابوں کی صورت میں آج بھی موجود ہیں، اگرچہ تحریف شدہ ہیں، لیکن صحف ابراہیم کا بظاہر کہیں کوئی سراغ نہیں ملتا۔ دوسری طرف اپنشد ز کی تحریروں میں توحید کی تعلیمات کا پایا جانا ان میں الہامی اثرات کی موجودگی کا واضح ثبوت ہے۔ اسی بنا پر میں اس نظریے کا قائل ہوں کہ اپنشدز یا تو صحف ابراہیم ہی کی تحریف شدہ شکلیں ہیں یا کم از کم صحف ابراہیم کی تعلیمات کے اثرات کسی نہ کسی طرح ان تک ضرور پہنچے ہیں۔

UP
X
<>