May 19, 2024

قرآن کریم > الأنبياء >surah 21 ayat 103

لا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الأَكْبَرُ وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ هَذَا يَوْمُكُمُ الَّذِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ 

اُن کو وہ (قیامت کی) سب سے بڑی پریشانی غمگین نہیں کرے گی، اور فرشتے اُن کا (یہ کہہ کر) استقبال کریں گے (کہ) : ’’ یہ تمہارا وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیاجاتا تھا۔‘‘

 آیت ۱۰۳:  لَا یَحْزُنُہُمُ الْفَزَعُ الْاَکْبَرُ:   «وہ بڑی گھبراہٹ انہیں پریشان نہیں کرے گی»

            قیامت کی صورت حال بہت ہی بھیا نک ہو گی۔ اگلی سورت ( سورۃ الحج) کے آغاز میں قیامت کی ہولناک کیفیت کا ذکر یوں کیا گیا ہے: یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیْمٌ :   «اے لوگو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو۔ قیامت کا زلزلہ یقینا بہت بڑی چیز ہے»۔ لیکن آیت زیر نظر میں یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کو اس سے کوئی تکلیف اور پریشانی نہیں ہوگی۔

            «فزع اکبر» سے مراد یہاں صرف قیامت کے دن کی سختیاں ہی نہیں بلکہ زمانہ ٔ قرب قیامت کی سختیاں بھی ہیں۔ اس صورتِ حال کا ذکر احادیث میں کافی تفصیل سے ملتا ہے۔ اِن تفصیلات کے مطابق قربِ قیامت کے زمانہ میں مسلمانوں کو عیسائیوں اور یہودیوں کے خلاف ایک بہت خوفناک جنگ لڑنا ہو گی۔ اس جنگ کے کئی مراحل ہوں گے۔ مسلمانوں کو اس میں بہت بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن اللہ کی خصوصی مدد مسلمانوں کے شامل ِحال ہو گی۔ اللہ کی یہ مدد ظاہری اور مادی اسباب کی صورت میں بھی سامنے آئے گی۔ انہی اسباب میں سے ایک سبب سرزمین عرب میں ایک مجدد امام مہدی کا ظہور بھی ہو گا۔ پھر جب حضرت مسیح کا نزول ہو گا تو مسلمان حضرت مسیح اور امام مہدی کی قیادت میں عیسائیوں اور یہودیوں کے اتحاد کا مقابلہ کریں گے۔ اس سے پہلے خراسان اور افغانستان کے علاقوں میں (میرے اندازے کے مطابق اس میں پاکستان کا علاقہ بھی شامل ہوگا) اسلامی حکومت قائم ہو چکی ہو گی اور اس حکومت کی طرف سے مذکورہ جنگ میں مسلمانوں کی مدد کے لیے افواج بھیجی جائیں گی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی کامیابی کے بعد آزمائش کا آخری مرحلہ یا جوج اور ماجوج کی یلغار کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اس کے بعد اسلام کا غلبہ ہو گا اور پوری دنیا میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہو جائے گی، جو لگ بھگ چالیس سال (مختلف روایات میں مختلف مدت مذکور ہے) تک رہے گی۔ یہ محمد رسول اللہ کی اُمت کا پانچواں دور ہو گا، جس کی خبر احادیث میں دی گئی ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر حضرت حذیفہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:   

((تَـکُوْنُ النُّـبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَا شَاءَ اللّٰہُ اَنْ تَـکُوْنَ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَـکُوْنُ خِلاَفَـۃً عَلٰی مِنْھَاجِ النُّـبُوَّۃِ، فَـتَـکُوْنُ مَا شَاءَ اللّٰہُ اَنْ تَـکُوْنَ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اللّٰہُ اَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَـکُوْنُ مُلْکًا عَاضًّا، فَـیَـکُوْنُ مَا شَاءَ اللّٰہُ اَنْ یَـکُوْنَ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَـکُوْنُ مُلْکًا جَبْرِیَّۃً، فَـتَـکُوْنُ مَا شَاءَ اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا، ثُمَّ تَـکُوْنُ خِلَافَۃً عَلٰی مِنْہَاجِ النُّـبُوَّۃِ)) ثُمَّ سَکَتَ.

«دَورِ نبوت تم میں اُس وقت تک رہے گا جب تک اللہ چاہے گا، پھر جب وہ اس کو ختم کرنا چاہے گا اس کو ختم کر دے گا۔ پھر نبوت کی طرز پر خلافت کا دَور ہو گا، پھر وہ دَور رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا، پھر وہ اس کو ختم کر دے گا جب وہ اس کو ختم کرنا چاہے گا۔ پھر کاٹ کھانے والی بادشاہت ہو گی۔ وہ دور بھی اُس وقت تک رہے گا جب تک اللہ چاہے گا، پھر جب وہ اس کو ختم کرنا چاہے گا تو ختم کر دے گا۔ پھر جبر کی فرماں روائی ہو گی، وہ رہے گی جب تک اللہ چاہے گا، پھر وہ اس کو ختم کر دے گا جب وہ اسے ختم کرنا چاہے گا۔ پھر نبوت کے طرز پر دوبارہ خلافت قائم ہو گی»۔ پھر آپ خاموش ہو گئے۔

            اس حدیث کی رو سے پہلا دور دورِ نبوت، دوسرا دوردورِ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ، تیسرا دور ظالم ملوکیت کا دور، چوتھا غلامی والی ملوکیت کا دور، جبکہ پانچواں اور آخری دور پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا ہے۔ اس خلافت کی خبر آپ نے اس حدیث میں بھی دی ہے جو حضرت ثوبان hسے مروی ہے۔ فرمایا:   

((اِنَّ اللّٰہَ زَوٰی لِيَ الْاَرْضَ فَرَاَیْتُ مَشَارِقَھَا وَمَغَارِبَھَا، وَاِنَّ اُمَّتِیْ سَیَبْلُغُ مُلْکُھَا مَا زُوِیَ لِیْ مِنْھَا))

«اللہ تعالیٰ نے مجھے پوری زمین کو لپیٹ کر (یا سکیڑ کر) دکھا دیا۔ چنانچہ میں نے اس کے سارے مشرق بھی دیکھ لیے اور تمام مغرب بھی۔ اور یقین رکھو کہ میری اُمت کی حکومت ان تمام علاقوں پر قائم ہو کر رہے گی جو مجھے لپیٹ کر (یا سکیڑ کر) دکھائے گئے۔»

اسی طرح حضرت مقداد بن الاسود سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا:  

 ((لاَ یَبْقٰی عَلٰی ظَھْرِ الْاَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ اِلاَّ اَدْخَلَہُ اللّٰہُ کَلِمَۃَ الْاِسْلَامِ بِعِزِّ عَزِیْزٍ اَوْذُلِّ ذَلِیْلٍ ---- اِمَّا یُعِزُّھُمُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فَیَجْعَلُھُمْ مِنْ اَھْلِھَا اَوْ یُذِلُّھُمْ فَـیَدِیْنُوْنَ لَھَا))---- قُلْتُ:   «فَـیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہُ لِلّٰہِ».

 «روئے ارضی پر نہ کوئی اینٹ گارے کا بنا ہوا گھر باقی رہے گا نہ کمبلوں کا بنا ہوا خیمہ جس میں اللہ اسلام کو داخل نہیں کر دے گا، خواہ کسی عزت والے کے اعزاز کے ساتھ خواہ کسی مغلوب کی مغلوبیت کی صورت میں ---- (یعنی) یا لوگ اسلام قبول کر کے خود بھی عزت کے مستحق بن جائیں گے یا اسلام کی بالادستی تسلیم کر کے اس کی فرماں برداری قبول کرنے پرمجبور ہو جائیں گے۔» میں (راوی) نے کہا: تب تو سارے کا سارا دین اللہ کے لیے ہو جائے گا۔»

            بہر حال قرآن میں موجود «بین السطور» اشاروں اور احادیث میں وارد صریح پیشین گوئیوں کے مطابق قیامت سے پہلے ان واقعات کا رونما ہونا طے ہے، اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ البتہ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ واقعات کے اس سلسلے کا آغاز کب ہو گا۔

            اس کے بعد قیامت کا مرحلہ ہو گا، لیکن قیامِ قیامت سے قبل ایک خوشگوار ہوا چلے گی جس سے تمام ِاہل ایمان پر موت طاری ہو جائے گی۔ اس مرحلے کے بعد صرف فساق و فجار ہی دنیا میں باقی رہ جائیں گے اور انہی لوگوں پر قیامت قائم ہو گی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:   

((لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اِلاَّ عَلٰی شِرَارِ النَّاسِ))

«قیامت صرف شریر لوگوں پر ہی آئے گی۔»

«الفزع الاکبر» اور «زلزلۃ الساعۃ» کی سختیوں کا سامنا بھی انہی لوگوں کو کرنا ہو گا، جبکہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو قیامت سے پہلے سکون و اطمینان کی موت دے کر اس دن کی سختیوں اور ہولناکیوں سے بچالے گا۔

            وَتَتَلَقّٰٹہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ہٰذَا یَوْمُکُمُ الَّذِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ:   «اور فرشتے ان سے ملاقاتیں کریں گے (یہ کہتے ہوئے کہ) یہ ہے آپ لوگوں کا وہ دن جس کا آپ سے وعدہ کیا گیا تھا۔»

            آج آپ لوگوں کو انعامات سے نوازا جائے گا، آپ کی قدر افزائی ہو گی، خلعتیں پہنائی جائیں گی اور اعلیٰ درجے کی مہمان نوازی ہو گی۔

UP
X
<>