May 2, 2024

قرآن کریم > الأنبياء >surah 21 ayat 18

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَي الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۭ وَلَـكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ

بلکہ ہم تو حق بات کو باطل پر کھینچ مارتے ہیں ، جو اُس کا سر توڑ ڈالتا ہے، اور وہ ایک دم ملیا میٹ ہوجاتاہے۔ اور جو باتیں تم بنا رہے ہو، اُن کی وجہ سے خرابی تمہاری ہی ہے

 آیت ۱۸:  بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہُ فَاِذَا ہُوَ زَاہِقٌ:   «بلکہ ہم حق کو دے مارتے ہیں باطل پر تو وہ اس کا بھیجا نکال دیتا ہے، تو جبھی وہ نابود ہو جاتا ہے۔»

            یہ تاریخ ِانسانی کا قرآنی فلسفہ ہے۔ دوسری طرف ایک نظریہ سپنگلر کا بھی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ قوموں کی زندگی ایک فرد کی زندگی سے مشابہ ہے۔ جس طرح ایک بچہ پیدا ہوتا ہے، بچپن گزارتا ہے، جوانی کو پہنچتا ہے، بوڑھا ہوتا ہے اور پھر مر جاتا ہے، ایسے ہی دنیا میں قومیں اور ان کی تہذیبیں پیدا ہوتی ہیں، ترقی کرتی ہیں، بامِ عروج پر پہنچتی ہیں، اور پھر کمزوریوں اور خرابیوں کے باعث زوال پذیر ہو کر ختم ہو جاتی ہیں۔ اس ضمن میں کارل مارکس نے جو Dialectical Materialism کا نظریہ (وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو الرعد، آيت: ۱۷ کی تشریح) پیش کیا ہے، وہ بھی اپنی جگہ اہم ہے۔

            بہر حال آیت زیر نظر میں جو فلسفہ دیا گیا ہے اس کے مطابق دنیا میں حق و باطل کی کشمکش مسلسل جاری ہے۔ ایک طرف ابلیس، اس کی نسل اور اس کے ایجنٹ ہیں، جبکہ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے نیک بندے، انبیاء ورسل، صدیقین، شہداء اور مؤمنین صادقین ہیں۔ قرآن کے اس فلسفہ کو اقبال نے اس طرح بیان کیا ہے:

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغِ  مصطفوی  سے  شرار بولہبی

مشیت ِالٰہی سے کبھی کبھی یہ کشمکش دھماکہ خیز ہو کر باقاعدہ ایک معرکے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ طالبانِ حق کی مدد کرتا ہے اور اُن کی طاقت کے ذریعے باطل کو کچل کر رکھ دیتا ہے۔

            حق و باطل کا ایسا ہی ایک بہت خوفناک معرکہ قربِ قیامت کے زمانے میں ہونے والا ہے۔ یہ جنگوں کا ایک طویل سلسلہ ہو گا جس کو عیسائی روایات میں Armageddon جبکہ احادیث میں «المَلحَمۃ العُظمٰی» کا نام دیا گیا ہے۔ علامہ اقبال نے مستقبل کے اس معرکے کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:

دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش

تہذیب نے  پھر اپنے درندوں  کو اُبھارا

اللہ  کو   پامردیٔ مؤمن   پہ   بھروسہ

ابلیس کو   یورپ کی  مشینوں کا سہارا

            یہاں علامہ اقبال نے لفظ «تہذیب» کے ذریعے اسی مخصوص ذہنیت اور سوچ کی طرف اشارہ کیا ہے جس کے تحت فرعون نے اپنے عوام کو «طَرِیقَتکُمُ المُثْلٰی» کے نام پرحضرت موسیٰ کے خلاف اُبھارنے کی کوشش کی تھی کہ اس وقت تمہارے مثالی تہذیب و تمدن کو بڑا خطرہ درپیش ہے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ کو جب بھی منظور ہوتا ہے کوئی تحریک یا کوئی جمعیت حق کی علمبردار بن کر کھڑی ہو جاتی ہے اور باطل اس سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں ایسی ہی قوم یا جماعت اللہ کے دست قدرت کی وہ تلوار ہے جس سے وہ باطل کا قلع قمع کرتا ہے:

صورتِ شمشیر ہے  دست ِقضا میں وہ قوم

کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب!

لیکن یہ مقامِ رفیع صرف وہی قوم حاصل کر سکتی ہے جو قدم قدم پر خود اپنا احتساب کرنے کی پالیسی پر عمل پیراہو۔

            وَلَکُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ:   «اور تمہارے لیے تباہی ہے اس کی وجہ سے جو تم لوگ بیان کر رہے ہو۔»

UP
X
<>