May 19, 2024

قرآن کریم > الأنبياء >surah 21 ayat 87

وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادٰي فِي الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ

اور مچھلی والے (پیغمبر یعنی یونس علیہ السلام) کو دیکھو ! جب وہ خفا ہو کر چل کھڑے ہوئے تھے، اور یہ سمجھے تھے کہ ہم ان کی کوئی پکڑ نہیں کریں گے۔ پھر انہوں نے اندھیریوں میں سے آواز لگائی کہ : ’’ (یا اﷲ !) تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو ہر عیب سے پاک ہے۔ بیشک میں قصوروار ہوں ۔‘‘

 آیت ۸۷:  وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا:   «اور مچھلی والے کو بھی (ہم نے نوازا) جب وہ چل دیا غصے میں بھرا ہوا»

            یعنی حضرت یونس۔ آپ کو «مچھلی والا» اس لیے فرمایا گیا ہے کہ آپ کو مچھلی نے نگل لیا تھا۔ آپ کو شہر نینوا کی طرف مبعوث فرمایا گیا تھا۔ آپ نے اپنی قوم کو بت پرستی سے روکا اور حق کی طرف بلایا۔ آپ نے بار بار دعوت دی، ہر طرح سے تبلیغ و تذکیر کا حق ادا کیا، مگر اس قوم نے آپ کی کسی بات کو نہ مانا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عذاب بھیجنے کا فیصلہ ہو گیا۔ اس موقع پر آپ حمیت حق کے جوش میں قوم سے برہم ہو کر ان کو عذاب کی خبر سنا کر وہاں سے نکل آئے۔ اس سلسلے میں بنیادی طور پر آپ سے ایک «سہو» سرزد ہو گیا کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت آنے سے پہلے ہی اپنے مقامِ بعثت سے ہجرت کر لی، جبکہ اللہ کی باقاعدہ اجازت کے بغیر کوئی رسول اپنے مقامِ بعثت کو چھوڑ نہیں سکتا۔ اسی اصول اور قانون کے تحت ہم دیکھتے ہیں کہ حضور نے تمام مسلمانوں کو مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی تھی، مگر آپ نے خود اس وقت تک ہجرت نہیں فرمائی جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے باقاعدہ اس کی اجازت نہیں مل گئی۔

            بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے قوانین بہت سخت ہیں اور اللہ کے مقرب بندوں کا معاملہ تواللہ کے ہاں خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ان آیات کا مطالعہ اور ترجمہ کرتے ہوئے ہمیں یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ معاملہ اللہ عزوجل اور اس کے ایک جلیل القدر رسول کے مابین ہے۔ اسے ہم الفاظ کے بظاہر مفہوم پر محمول نہیں کر سکتے۔ حضرت یونس وہ رسول ہیں جن کے بارے میں حضور نے فرمایا:    «مجھے یونس ابن متیّٰ پر بھی فضیلت نہ دو»۔ بہر حال حضرت یونس حمیت ِحق کے باعث اپنی قوم پر غضبناک ہو کر وہاں سے نکل کھڑے ہوئے۔

            فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ:   «اور اُس نے گمان کیا کہ ہم اسے پکڑ نہیں سکیں گے»

            واللہ اعلم! یہ الفاظ بہت سخت ہیں۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے ان الفاظ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مطلب نہیں کہ معاذ اللہ، یونس فی الواقع ایسا سمجھتے تھے کہ وہ بستی سے نکل کر گویا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہی نکل گئے، بلکہ آپ کے طرزِ عمل سے یوں لگتا تھا۔ یعنی صورت حال ایسی تھی کہ دیکھنے والا یہ سمجھ سکتا تھا کہ شاید آپ نے ایسا سمجھا تھا کہ اللہ ان کو پکڑ نہیں سکے گا، لیکن ظاہر ہے کہ اس کا کوئی امکان نہیں کہ حضرت یونس کے دل میں ایسا کوئی خیال گزرا ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کامل بندوں کی ادنیٰ ترین لغزش کا ذکر بھی بہت سخت پیرایہ میں کرتا ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے لکھا ہے کہ اس سے کاملین کی تنقیص نہیں ہوتی، بلکہ جلالت ِشان ظاہر ہوتی ہے کہ اتنے بڑے ہو کر ایسی چھوٹی سی فروگزاشت بھی کیوں کرتے ہیں! ع «جن کے رُتبے ہیں سوا، اُن کی سوا مشکل ہے!»

            فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰت:   «پس اُس نے (اللہ تعالیٰ کو) تاریکیوں کے اندر پکارا»

            آپ اپنے علاقے سے نکلنے کے بعد ایک کشتی میں سوار ہوئے اور وہاں ایسی صورت حال پیدا ہوئی کہ آپ کو دریا میں چھلانگ لگانا پڑی اور ایک بڑی مچھلی نے آپ کو نگل لیا۔ مچھلی کے پیٹ اور قعر دریا کی تاریکیوں میں آپ تسبیح کرتے اور اللہ کو پکارتے رہے:   

            اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ:   «کہ تیر ے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے اور یقینا میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔»

            اے اللہ! مجھ سے غلطی ہو گئی ہے، میں خطاکار ہوں، تو مجھے معاف کر دے! یہ آیت «آیت کریمہ» کہلاتی ہے۔ روایات میں اس آیت کے بہت فضائل بیان ہوئے ہیں۔ کسی مصیبت یا پریشانی کے وقت یہ دعا صدق ِدل سے مانگی جائے تو کبھی قبولیت سے محروم نہیں رہتی۔

UP
X
<>