May 20, 2024

قرآن کریم > الأنبياء >surah 21 ayat 93

وَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ كُلٌّ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ 

اور لوگوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے بانٹ لیا، (مگر) سب ہمارے پاس لوٹ کر آنے والے ہیں

 آیت ۹۳:  وَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَیْنَہُمْ:   «اور انہوں نے اپنے معاملے کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیا۔»

            بقول اقبال:

اُڑائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گل نے

چمن میں  ہر  طرف  بکھری  ہوئی ہے  داستاں  میری!

            یہ مضمون سورۃ الحجرمیں اس طرح بیان ہوا ہے:  کَمَـآ اَنْزَلْنَا عَلَی الْمُقْتَسِمِیْنَ  الَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ  فَوَرَبِّکَ لَنَسْئَلَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ:   «(یہ اسی طرح کی تنبیہ ہے) جس طرح ہم نے ان تفرقہ بازوں کی طرف بھیجی تھی۔ جنہوں نے اپنے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ تو (اے محمد ) آپ کے رب کی قسم! ہم ان سب سے پوچھ کر رہیں گے»۔ اس کیفیت کی عملی تصویر آج اُمت مسلمہ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ آج ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ ہر جماعت، گروہ یا مسلک کے پیروکاروں نے قرآن کا کوئی ایک موضوع اپنے لیے مخصوص کر لیا ہے اور ان لوگوں کے نزدیک بس اسی کی اہمیت ہے اور وہی کل دین ہے۔ مثلاً ایک گروہ قرآن میں سے چن چن کر صرف ان آیات کو اپنی تحریر و تقریرکا موضوع بناتا ہے جن میں حضور کی رفعت ِشان اور محبت کا تذکرہ ہے۔ گویا انہوں نے قرآن کا صرف وہ حصہ اپنے لیے الاٹ کرا لیا ہے۔ ان کے مقابلے میں ایک دوسرا گروہ:    قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ:   (الکہف: ۱۱۰) اور اس سے ملتے جلتے مضامین کی آیات پر ڈیرہ ڈال کر حضور کی بشریت کو نمایاں کرنے اورمشرکانہ اوہام کی نفی کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اگر کوئی گروہ اولیاء اللہ اور صوفیاء سے عقیدت کا دعوے دار ہے تو ان کی ہر گفتگو اور تقریر کا محور:  اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ:   (یونس) ہی ہوتا ہے۔ الغرض ہر گروہ کے ہاں کتاب اللہ کی چند آیات پر زور ہے اور باقی تعلیمات کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ چنانچہ آج کے اس دور میں قرآن کو ایک وحدت کی حیثیت سے پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے، جس کے لیے ہر صاحب ِعلم کو استطاعت بھر کوشش کرنی چاہیے۔

            کُلٌّ اِلَیْنَا رٰجِعُوْنَ:   «یہ سب کے سب ہماری ہی طرف لوٹ کر آنے والے ہیں۔» 

UP
X
<>