May 3, 2024

قرآن کریم > الحج >surah 22 ayat 15

مَنْ كَانَ يَظُنُّ اَنْ لَّنْ يَّنْصُرَهُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَى السَّمَاۗءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنْظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهُ مَا يَغِيْظُ 

جو شخص یہ سمجھتا تھا کہ اﷲ دُنیا اور آخرت میں اس (پیغمبر) کی مدد نہیں کرے گا تو وہ آسمان تک ایک رسّی تان کر رابطہ کاٹ ڈالے، پھر دیکھے کہ کیا اُس کی یہ تدبیر اُس کی جھنجھلاہٹ دُور کر سکتی ہے؟

 آیت ۱۵:  مَنْ کَانَ یَظُنُّ اَنْ لَّنْ یَّنْصُرَہُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ:   «جس شخص کو یہ گمان ہو کہ اللہ ہرگز اس کی مدد نہیں کرے گا دنیا اور آخرت میں »

            فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَی السَّمَآءِ ثُمَّ لْیَقْطَعْ:   «تو اسے چاہیے کہ وہ ایک رسّی آسمان کی طرف تانے، پھر اسے کاٹ دے»

            فَلْیَنْظُرْ ہَلْ یُذْہِبَنَّ کَیْدُہُ مَا یَغِیْظُ:   «پھر دیکھے کہ کیا اس کی یہ تدبیر اس چیز کو دور کر دیتی ہے جو اسے غصہ میں لاتی ہے!»

            یہ آیت مشکلات القرآن میں سے ہے اور مختلف مفسرین نے اپنے اپنے انداز میں اس کی تعبیر کی ہے۔ میرے نزدیک «موضح القرآن» میں شاہ عبدالقادر دہلویؒ کی تعبیر سب سے بہتر ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو پورے اخلاص کے ساتھ ہمہ وقت دین کی خدمت میں مصروف ہے اور اس رستے میں آنے والی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اللہ سے مسلسل امید رکھتا ہے کہ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں اللہ کی مدد ضرور آئے گی۔ لیکن خدانخواستہ کسی مرحلے پر اگر وہ اللہ کی مدد سے مایوس ہو جائے تو اس کی یہ کیفیت اس کے لیے ناکامی کا باعث بن جائے گی۔ چنانچہ اللہ کے راستے میں جدوجہد کرنے والوں کو ع: «پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ» کے مصداق کبھی بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور اللہ کی مدد سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ سورۃ الزمر کی آیت: ۵۳ میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:  لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ:   کہ تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ۔ اگر کسی خوش قسمت انسان کو اللہ کے رستے میں جدوجہد کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے تو اسے اللہ کے اس حکم کی تعمیل بھی کرنی چاہیے۔ اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کے فیصلے اس کی اپنی مشیت کے مطابق ہوتے ہیں اور اس کی مشیت میں بندوں کا کوئی عمل دخل نہیں۔ بندوں کو تو بس یہ چاہیے کہ وہ اپنے اپنے حصے کی کوشش کریں اور اس کے وعدوں پر پختہ یقین رکھیں۔ جیسے اس کے بہت سے وعدوں میں سے ایک خوش کن وعدہ یہ بھی ہے:  وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا: (العنکبوت:  ۶۹) «اور جو لوگ ہماری راہ میں جدو جہد کریں گے، ہم لازماً انہیں اپنے راستے دکھائیں گے»۔ چنانچہ داعیانِ حق کو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے اس کے حضور یوں التجا کرتے رہنا چاہیے: اِنَّکَ لاَ تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ: (آل عمران) «یقینا تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا»۔ ہمیں یہ اندیشہ تو نہیں ہے کہ تو اپنا وعدہ پورا نہیں کرے گا، بلکہ ہمیں یہ فکر دامن گیر ہے کہ ہم تیرے وعدوں کا مصداق بننے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں۔ اس کے لیے جو شرائط مطلوب ہیں وہ شرائط ہم پوری کر بھی سکیں گے یا نہیں!

              آیت زیر نظر میں یہ نکتہ سمجھانے کے لیے ایک شخص کی مثال دی گئی ہے جس نے اپنے اوپر ایک رسی (اللہ کی طرف سے امید) کو تھاما ہوا ہے۔ وہ شخص اگر کسی مرحلے پر مایوس ہو کر خود ہی رسی کو چھوڑ دے گا تو وہ اپنا ہی نقصان کر ے گا۔ جیسے ایک حدیث میں قرآن کو اللہ کی رسی قرار دیا گیا ہے، ایسے ہی اللہ کی امید بھی ایک معنوی رسی ہے جو ہمیں اللہ کے ساتھ وابستہ کیے ہوئے ہے۔ جب تک یہ رسی ہمارے ہاتھ میں رہے گی اللہ سے ہمارا تعلق قائم رہے گا، اور ہمارے لیے ایک سہارا موجود رہے گا۔ اگر ہم اس رسی کو کاٹ دیں گے یعنی اللہ سے اپنی اُمید منقطع کر لیں گے تو اس مضبوط سہارے کو گویا خود ہی اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیں گے۔ ایسا کرنے کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا نکلے گا کہ ہم بے یارو مددگار ہو جائیں گے (زمین پر اوندھے منہ گر جائیں گے)۔ چنانچہ اس آیت کے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کی نصرت کی امید اور اس کے وعدوں پر یقین رکھو، یہ تمہارے لیے بہت مضبوط سہارا ہے۔

UP
X
<>