May 8, 2024

قرآن کریم > الحج >surah 22 ayat 45

فَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ فَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰي عُرُوْشِهَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّقَصْرٍ مَّشِيْدٍ

غرض کتنی بستیاں تھیں جن کو ہم نے اُس وقت ہلاک کیا جب وہ ظلم کر رہی تھیں، چنانچہ وہ اپنی چھتوں کے بل گری پڑی ہیں ، اور کتنے ہی کنویں جو اَب بیکار ہوئے پڑے ہیں ، اور کتنے پکے بنے ہوئے محل (جو کھنڈر بن چکے ہیں )

 آیت ۴۵:  فَـکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَہْلَکْنٰہَا وَہِیَ ظَالِمَۃٌ:   «اور کتنی ہی بستیاں تھیں جنہیں ہم نے ہلاک کردیا اور وہ ظالم تھیں»

            اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے جس جس بستی کو ہلا ک کیا ان کے باسی مجرم اور گناہ گار تھے۔ جب بھی کوئی بستی کفر و شرک اور دوسرے گناہوں کے سبب معصیت اور برائی کا مرکز بن جاتی تو اس کا وجود معاشرے کے لیے خطرے کی علامت بن جاتا۔ چنانچہ جس طرح انسانی جسم کا کوئی حصہ گل سڑ کر متعفن مواد سے بھر جائے تو باقی جسم کو محفوظ رکھنے کے لیے اس حصے یا عضو کو کاٹ پھینکنا نا گزیر ہو جاتا ہے، بالکل اسی طرح اللہ کی مشیت سے ہر ایسی بستی کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔

            فَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا:   «تو وہ گری پڑی ہیں اپنی چھتوں پر»

            وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَۃٍ:   «اور کتنے ہی ناکارہ کنویں (بند پڑے ہیں)»

            ان تباہ ہونے والی بستیوں میں کتنے کنویں ہوں گے جو کسی وقت بڑی محنت سے کھودے گئے ہوں گے۔ اپنے اپنے وقت پر ان کنوؤں پر پانی بھرنے والے لوگوں کے کیسے کیسے جمگھٹے رہا کرتے ہوں گے، مگر اب وہ کنویں ویران و معطل پڑے ہیں۔

            وَّقَصْرٍ مَّشِیْدٍ:   «اور کتنے ہی مضبوط بنائے ہوئے محل (بھی ویران پڑے ہیں)۔»

            ان قوموں کے گچ کاری کیے گئے مضبوط اور عالی شان محل اب کھنڈرات میں تبدیل ہوئے پڑے ہیں۔ سپین میں جا کر الحمرا کو دیکھو!، کبھی یہ محل مسلمان فرمانرواؤں کا مسکن تھا، آج اس کی کیا کیفیت ہے؟ قرطبہ کی عالی شان مسجد کو دیکھو! جہاں اب نہ کوئی سجدہ کرنے والا ہے اور نہ وہاں کسی کو سجدہ کرنے کی اجازت ہے۔

            [بئرٍ اور قَصْرٍ، قَرْیۃٍ پر عطف ہیں۔]

UP
X
<>