May 8, 2024

قرآن کریم > الحج >surah 22 ayat 46

اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ يَّعْقِلُوْنَ بِهَآ اَوْ اٰذَانٌ يَّسْمَعُوْنَ بِهَا ۚ فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ

تو کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں جس سے اُنہیں وہ دل حاصل ہوتے جو انہیں سمجھ دے سکتے، یا ایسے کان حاصل ہوتے جن سے وہ سن سکتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں ، بلکہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں

 آیت ۴۶:  اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِہَآ:   «تو کیا یہ لوگ زمین میں گھومے پھرے نہیں ہیں کہ ہوتے ان کے دل جن سے یہ سمجھتے!»

            اگر یہ لوگ عقل اور سمجھ سے کام لیتے تو پیغمبروں کو جھٹلانے والی قوموں کی بستیوں کے کھنڈرات کو دیکھ کر عبرت پکڑتے اور اصل بات کی تہہ تک پہنچتے۔ اس آیت میں ایک بہت اہم نکتہ بیان ہوا ہے کہ یہاں لفظ «قلب» کے ساتھ عقل اور سمجھنے کے تعلق کی بات ہوئی ہے۔ یہ بات کئی دفعہ اس سے پہلے بھی میں دہرا چکا ہوں کہ انسان ایک مرکب وجود کا حامل ہے۔ اس مرکب کی ایک اکائی تو اس کا جسم ہے جو خالص ایک حیوانی وجود ہے۔ اس وجود میں حیوانوں کی تمام تر خصوصیات (faculties) موجود ہیں۔ اس لحاظ سے انسان گویا اعلیٰ ترین حیوان ہے، یعنی اپنے جسم کی ساخت کے اعتبار سے وہ تمام حیوانوں سے افضل ہے۔ لیکن اپنے اس حیوانی وجود کے ساتھ ساتھ انسان اپنا ایک روحانی وجود بھی رکھتا ہے، جو اس کے حیوانی وجود سے علیحدہ اور مستقل بالذات وجود ہے۔ انسان کے ان دونوں وجودوں کے ملاپ اور امتزاج کی ترکیب اور کیفیت کے متعلق ہم کچھ بھی ادراک نہیں رکھتے۔ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ انسانی وجود کے اندر جو «جان» (life) ہے وہ کہاں ہے؟ کیا یہ جان دل میں ہے؟ لیکن دل تو آج کل بدل بھی دیا جاتا ہے اور جان وہیں کی وہیں رہتی ہے۔ تو کیا یہ جان دل سے متعلق ہے یا دماغ سے متعلق؟ حقیقت بہر حال یہی ہے کہ اس کے متعلق ہم واقعی نہیں جانتے۔ تو جب ہم جان کے متعلق ہی کچھ نہیں جانتے تو اس سے آگے بڑھ کر «روح» کے متعلق ہم کیا جان سکتے ہیں کہ انسان کی روح اس کے جسم کے اندر کس طور سے صحبت پذیر ہے؟

اتصالے  بے تکیف  بے قیاس!

ہست ربّ الناس را با جانِ ناس

             انسان کے حیوانی اور روحانی وجود میں باہم مصاحبت اور اتصال تو ہے، لیکن اس کی نوعیت واقعتا کیا ہے؟ بقول شاعر یہ مصاحبت اور اتصال «بے تکیف و بے قیاس» ہے۔ نہ اس کی کیفیت معلوم ہو سکتی ہے اور نہ ہی اسے کسی اور چیز پر قیاس کیا جا سکتا ہے، لیکن انسان کے دو علیحدہ علیحدہ وجود بہر حال موجود ہیں۔ ان میں سے اس کا روحانی وجود بہت پہلے عالم ارواح میں پیدا کیا گیا تھا، جس کا حوالہ سورۃ الانعام کی آیت:  ۹۴ میں اس طرح آیا ہے: کَمَا خَلَقْنٰـکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ:   جبکہ ہر انسان کے مادی یا جسمانی وجود کی پیدائش اس دنیا یا عالم خلق کے اندر اپنے اپنے وقت پر ہوتی ہے۔

            اس ساری تفصیل میں سیاق و سباق کے حوالے سے سمجھنے کی اصل بات یہ ہے کہ انسان کے دونوں وجودوں میں سے ہر وجود کی اپنی اپنی صلاحیتیں اور اپنے اپنے ذرائع علم ہیں۔ روح کی اپنی عقل، اپنی بصارت اور اپنی سماعت ہے، جبکہ حیوانی وجود کی اپنی عقل ہے، اپنی آنکھیں اور اپنے کان ہیں۔ سورۂ بنی اسرائیل کی اس آیت میں حیوانی وجود ہی کے حواس کا ذکر ہے: اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤُوْلاً۔ سورۂ بنی اسرائیل کے مطالعے کے دوران اس آیت کے تحت حیوانی وجود کے ذرائع علم سے متعلق تفصیلاً گفتگو ہو چکی ہے۔ اب آیت زیر نظر میں روحانی وجود کے ذرائع علم کی بات ہو رہی ہے۔ اس کو مختصراً یوں سمجھ لیں کہ روح دیکھتی بھی ہے، سنتی بھی ہے اورسمجھتی بھی ہے۔ چنانچہ اسی حوالے سے یہاں فرمایا گیا ہے کہ ان لوگوں کے دل ہوتے جن سے یہ بات سمجھتے!

            اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِہَا:   «یا (ہوتے ان کے) کان جن سے یہ سنتے!»

            فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ:   «تو اصل میں آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔»

            ذرا غور کریں، یہ کون سا اندھا پن ہے؟ دراصل یہی وہ اندھا پن تھا جو ابو جہل، ابو لہب اور ولید بن مغیرہ جیسے لوگوں کو لاحق تھا۔ ان کی آنکھیں تو اندھی نہیں تھیں، لیکن ان کے دل مکمل طور پر اندھے ہو چکے تھے۔ ان کی روحوں پر دُنیوی اغراض، ہٹ دھرمیوں اور عصبیتوں کے غلیظ پردے پڑ چکے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی روحیں نہ دیکھ سکتی تھیں، نہ سن سکتی تھیں اور نہ سمجھ سکتی تھیں۔ ایسے لوگوں کا دیکھنا اور سننا صرف حیوانی سطح کا دیکھنا اور سننا ہوتا ہے۔ جیسے تیزی سے گزرتی ہوئی کار کو دیکھ کر انسان بھی ایک طرف ہو جاتا ہے اور کتا بھی اس سے اپنا بچاؤ کر لیتا ہے۔ اس حوالے سے انسان اور کتے کے دیکھنے میں کوئی فرق نہیں۔ چنانچہ انسان کو چاہیے کہ اپنی ان صلاحیتوں کے اعتبار سے حیوانوں کی سطح سے ترقی کر کے انسانی مقام و مرتبہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اسی نکتہ کو اقبال جیسے صاحب ِنظر نے یوں بیان کیا ہے:    «دیدن دگر آموز! شنیدن دگر آموز!» کہ ذرا دوسری طرح کا دیکھنا سیکھو اور دوسرے انداز کا سننا سیکھو!

            قریش ِمکہ کے تجارتی قافلے عذابِ الٰہی کی زد میں آنے والی تباہ شدہ بستیوں کے کھنڈرات کے پاس سے گزرا کرتے تھے۔ وہ لوگ ان کھنڈرات کو دیکھتے تو تھے لیکن وہ یہ سب کچھ حیوانی آنکھوں سے دیکھتے تھے۔ چنانچہ نہ وہ ان سے کوئی سبق حاصل کرتے تھے، نہ عبرت پکڑتے تھے۔ انسان کی یہی وہ کیفیت ہے جس کے بارے میں آیت زیر مطالعہ میں فرمایا گیا ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔ اس لیے کہ روح کا مسکن قلب ہے۔ ہم یہ تو نہیں سمجھ سکتے کہ اس ملاپ کی نوعیت اور کیفیت کیا ہے اور نہ ہی ہم دل کے اندر کسی طریقے سے روح کے اثرات کا کھوج لگا سکتے ہیں، کیونکہ وہ ایک غیر مرئی چیز ہے، لیکن انسان کے حیوانی وجود کے اندر روح کا تعلق بہر حال اس کے «قلب» کے ساتھ ہی ہے۔

UP
X
<>