May 8, 2024

قرآن کریم > الحج >surah 22 ayat 47

وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ يُّخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهُ ۭ وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ

اور یہ لوگ تم سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں ، حالانکہ اﷲ اپنے وعدے کی ہر گز خلاف ورزی نہیں کرے گا، اور یقین جانو کہ تمہارے رَبّ کے یہاں کا ایک دن تمہاری گنتی کے مطابق ایک ہزار سال کی طرح کا ہوتا ہے

 آیت ۴۷:  وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰہُ وَعْدَہُ:   «اور (اے نبی!) یہ لوگ عذاب کے بارے میں آپ سے جلدی مچا رہے ہیں، اور اللہ اپنے وعدے کی ہرگز خلاف ورزی نہیں کرے گا۔»

            عذاب کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے سب وعدے ہر صورت میں پورے ہوں گے اور ان لوگوں پر عذاب آ کر رہے گا۔ البتہ یہ عذاب کب آئے گا؟ کس شکل میں آئے گا؟ اس کے بارے میں صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ اس نے ایسی تمام معلومات خفیہ رکھی ہیں۔ سورۃ الانبیاء میں اس موضوع سے متعلق حضور سے یوں اعلان کرایا گیا :  وَاِنْ اَدْرِیْٓ اَقَرِیْبٌ اَمْ بَعِیْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ:   «اور میں نہیں جانتا کہ جس عذاب کا تم لوگوں سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ قریب ہے یا کچھ عرصے بعد آئے گا۔»

            وَاِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ:   «اور یقینا ایک دن آپ کے رب کے نزدیک ایک ہزار برس کی طرح ہے اُس حساب سے جو گنتی تم کرتے ہو۔»

            دنیا میں عام انسانی حساب کے مطابق ایک ہزار برس کا عرصہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن کے برابر ہے۔ سورۃ السجدۃ میں یہی مضمون اس طرح بیان ہوا ہے:  یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُٓ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ:   «اللہ آسمان سے زمین تک کے ہر معاملے کی تدبیر کرتا ہے، پھر یہ چڑھتا ہے اس کی طرف ایک ایسے دن میں جس کی مقدار ہے ایک ہزار سال، جیسے تم لوگ گنتے ہو»۔ یہ «تدبیرِ اَمر» دراصل اللہ تعالیٰ کے ان تین کاموں میں سے ایک ہے جن کے متعلق قبل ازیں سورۂ یونس کی آیت: ۳ کے تحت (جلد چہارم) شاہ ولی اللہ کی تصنیف «حجۃ اللہ البالغہ» کے حوالے سے بتایا جا چکا ہے، یعنی ابداع، خلق اور تدبیر۔ چنانچہ اس تیسرے کام (تدبیر) کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کو طرح طرح کے احکام دیے جاتے ہیں اور پھر فرشتوں کے ذریعے سے ہی ان احکام کی تنفیذ (execution) ہوتی ہے۔ اس منصوبہ بندی میں اللہ کے ہاں ایک دن کا عرصہ انسانی گنتی کے مطابق ایک ہزار برس کے برابر ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی ذہن نشین کر لیجیے کہ یہ مضمون چونکہ بہت واضح الفاظ کے ساتھ قرآن میں دو مرتبہ آیا ہے اس لیے یہ معاملہ «متشابہات» میں سے نہیں بلکہ «محکمات» کے درجے میں ہے۔

UP
X
<>