May 2, 2024

قرآن کریم > الحج >surah 22 ayat 61

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ وَاَنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ

یہ اس لئے کہ اﷲ (کی قدرت اتنی بڑی ہے کہ وہ) رات کو دن میں داخل کر دیتا اور دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے، اور اس لئے کہ اﷲ ہر بات سنتا، ہر چیز دیکھتا ہے

 آیت ۶۱:  ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِ:   «اور یہ اس لیے کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے»

            یعنی اس کائنات کا پورا نظام عدل و انصاف پر مبنی ہے۔ رات دن کا یہ الٹ پھیر اس نظام کے اندر موجود اعتدال و توازن کی ایک مثال ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کائنات کا یہ نظام ایسے ہی چل رہا ہے جیسے کہ اسے چلنا چاہیے۔ اس نظام کو درست رکھنے کے لیے قدرت کی طرف سے جو تدابیر اختیار کی جاتی ہیں ان سے متعلق قبل ازیں آیت: ۴۰ میں ایک راہنما اصول بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے نظام میں ظالم اور مفسد قوتوں کو مستقلاً برداشت نہیں کرتا اور دوسری قوتوں کے ذریعے انہیں نیست و نابود کرتا رہتا ہے:  وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا:   «اور اگر اللہ بعض لوگوں کو بعض دوسرے لوگوں کے ذریعے دور نہ کرتا رہتا، تو ڈھا دیا جاتا خانقاہوں، گرجوں، معبدوں اور مسجدوں کو، جن میں کثرت سے اللہ کا نام لیا جاتا ہے»۔ چنانچہ جس طرح اللہ تعالیٰ انسانی معاشرے کے نظام کو عدل پر قائم رکھنے کے لیے انتظامات کرتا ہے اسی طرح اس نے کائناتی اور آفاقی نظام کو بھی ٹھیک ٹھیک چلانے کا اہتمام کر رکھا ہے۔

            وَاَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ:   «اور یہ کہ اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔» 

UP
X
<>