May 2, 2024

قرآن کریم > الحج >surah 22 ayat 76

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۭ وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ

وہ اُن کے آگے اور پیچھے کی ساری باتوں کو جانتا ہے، اور اﷲ ہی پر تمام معاملات کا دارومدار ہے

 آیت ۷۶:  یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ:   «وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے۔»

            وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ:   «اور اللہ ہی کی طرف تمام معاملات لوٹا دیے جائیں گے۔»

            اس آیت میں آخرت کا ذکر بھی آ گیا اور یوں اس دعوتِ عمومی میں امورِ ثلاثہ یعنی توحید، رسالت اور آخرت کا ذکر کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ اس دعوت میں یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ (آیت: ۳۷) کے الفاظ سے نوعِ انسانی کے تمام افراد کو مخاطب کیا گیا ہے۔

            اب دوسرے مرحلے کی دعوت ان خصوصی لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے اس پہلی دعوت پر لبیک کہا کہ ہم ایک اللہ کو معبود مانتے ہیں، محمد کو اللہ کا رسول تسلیم کرتے ہیں، بعث بعد الموت پر بھی یقین رکھتے ہیں اور اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّــآ اِلَـیْہِ رٰجِعُوْنَ کے فلسفے پر بھی ایمان رکھتے ہیں، وہ لوگ اہل ایمان قرار پائے۔ اب اگلے مرحلے میں انہی لوگوں کو عمل کی دعوت دی جا رہی ہے۔ اس اندازِ دعوت میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ اس میں فعل امر کا استعمال کیا گیا ہے، یعنی اس دعوت کا اندازحکمیہ ہے۔ پہلی دعوت میں فعل امر کا استعمال صرف مثال سنانے کی حد تک ہوا تھا:   فَاسْتَمِعُوْا لَہُ:  کہ یہ مثال جو بیان کی جا رہی ہے اسے غور سے سنو! لیکن جو لوگ اس دعوت کو مان کر اسلام کے دائرہ میں آ گئے ہیں انہیں اب باقاعدہ حکم دیا جا رہا ہے:    

UP
X
<>