May 2, 2024

قرآن کریم > الحج >surah 22 ayat 77

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَــيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ

اے ایمان والو ! رُکوع کرو، اور سجدہ کرو، اور اپنے پروردگار کی بندگی کرو، اور بھلائی کے کام کرو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو

 آیت ۷۷:  یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّکُمْ:   «اے ایمان کے دعوے دارو! جھک جاؤ اور سر بسجود ہو جاؤ اور اپنے رب کی بندگی کرو»

            یہاں صرف اصطلاحی رکوع اور سجدہ ہی مراد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کے سامنے مکمل طور پر سر ِتسلیم خم کر دینے کا حکم ہے۔ اسی طرح «عبادت» کے حکم میں بھی «مکمل بندگی» کا مفہوم پنہاں ہے۔

زندگی آمد برائے بندگی زندگی بے بندگی شرمندگی!

            وَافْعَلُوا الْخَیْر:   «اور نیک کام کرو»

            یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ وَاعْبُدُوْا (بندگی کرو!) کے حکم میں تو گویا سب کچھ آ گیا۔ اب اس کے بعد مزید نیک کام کون سے ہیں؟ دراصل «فعل خیر» سے یہاں مراد خدمت خلق ہے۔ اس حکم سے مراد یہ ہے کہ اپنے آپ کو خدمت ِخلق میں لگا دو! اور خدمت ِخلق صرف بھوکے کو کھانا کھلانے تک ہی محدود نہیں بلکہ سب سے بڑی خدمت ِخلق یہ ہے کہ لوگوں کی عاقبت سنوارنے کی کوشش کی جائے۔ چنانچہ اس حکم میں یہ بھی شامل ہے کہ اے اللہ کے بندو! ایمان و عمل کے جو حقائق تم پر منکشف ہو گئے ہیں ان سے دوسرے لوگوں کو بھی روشناس کراؤ، تا کہ وہ جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جائیں۔

            لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ:   «تا کہ تم فلاح پاؤ!»

            سیاق و سباق کے اعتبار سے یہ بہت اہم بات ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے ایمان کے دعوے دارو! کہیں تم یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ ایمان کا اقرار کر لیا تو بس اب فلاح ہی فلاح ہے۔ بس کلمہ پڑھ لیا اور کامیابی ہو گئی۔ نہیں ایسا نہیں! ع «یہ شہادت گہ ِاُلفت میں قدم رکھنا ہے!» تم لوگوں نے اس شہادت گاہ میں قدم رکھا ہے تو اب اس کے تقاضے پورے کرو گے تو تب کامیابی ہو گی۔ اگر تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ بس ہم مسلمان ہو گئے ہیں اور اب بیٹھے بٹھائے ہمیں جنت مل جائے گی تو یہ تمہارا اپنا خیال ہے، تمہاری اپنی دل خوش کن تمنا (wishful thinking) ہے۔ جیسے کہ بنی اسرائیل کے بارے میں فرمایا گیا:  تِلْکَ اَمَانِیُّہُمْ:   (البقرہ: ۱۱۱) «یہ ان کی تمنائیں ہیں۔»

            امام شافعی کی رائے ہے کہ سورۃ الحج کی اس آیت کی تلاوت پر سجدۂ تلاوت کرنا چاہیے، جبکہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک یہ آیت ِسجدہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں یہ بھی واضح رہے کہ آیاتِ سجدہ پر سجده تلاوت کرنا امام ابو حنیفہ کے نزدیک واجب جبکہ امام شافعی کے نزدیک مستحب ہے۔

UP
X
<>