May 2, 2024

قرآن کریم > الحج >surah 22 ayat 78

وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ فَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ 

اور اﷲ کے راستے میں جہادکرو، جیسا کہ جہاد کا حق ہے۔ اُس نے تمہیں (اپنے دین کیلئے) منتخب کر لیا ہے، اور تم پر دین کے معاملے میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔ اپنے باپ ابراہیم کے دین کو مضبوطی سے تھام لو، اُس نے پہلے بھی تمہارانام مسلم رکھا تھا، اور اس (قرآن) میں بھی، تاکہ یہ رسول تمہارے گواہ بنیں ، اور تم دوسرے لوگوں کیلئے گواہ بنو۔ لہٰذا نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ اداکرو، اور اﷲ کو مضبوطی سے تھامے رکھو، وہ تمہارا رکھوالا ہے، دیکھو، کتنا اچھا رکھوالا، اور کتنا اچھا مددگار !

 آیت ۷۸:  وَجَاہِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہِ:   «اور جہاد کرو اللہ کے لیے جیسا کہ اُس کے لیے جہاد کا حق ہے۔»

            ہُوَ اجْتَبٰـکُمْ:   «اُس نے تمہیں چن لیا ہے»

            اب نبوت محمد ٌرسول اللہ پر ختم ہو چکی ہے۔ آئندہ جبرائیل کسی کے پاس وحی لے کر نہیں آئیں گے۔ انہوں نے جو وحی پہنچانی تھی پہنچا دی ہے اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکام محمد نے تم لوگوں تک پہنچا دیے ہیں۔ اب ان احکام کو، اس دعوت کو تمام نوعِ انسانی تک پہنچانے کے لیے اللہ نے تمہارا انتخاب کیا ہے۔ تمام انسانوں میں سے تمہیں چن لیا گیا ہے، اس عظیم الشان مشن کے لیے تمہارا سلیکشن ہو گیا ہے۔ چنانچہ تم اپنے نصیب پر فخر کرو اور اس کام میں لگ جاؤ۔

            وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ:   «اور دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔»

            مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰہِیْمَ:   «تمہارے جد امجد ابراہیم کی ملت۔»

            ہُوَ سَمّٰـکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ:   «اُسی نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے»

            اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو «مسلم» کا خطاب دیا ہے اور تمہارے جد امجد ابراہیم نے بھی تمہارا یہی نام رکھا تھا۔ سورۃ البقرۃ، آیت: ۱۲۸ میں حضرت ابراہیم کی دعا کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں:  رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ:   «پروردگار! ہمیں بھی اپنا فرمانبردار (مسلم) بنا کر رکھیو اور ہماری اولاد سے بھی ایک اُمت مسلمہ اٹھائیو!»

            مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ہٰذَا:   «اس سے پہلے بھی (تمہارا یہی نام تھا) اور اس (کتاب) میں بھی ہے»

            لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَـکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ:   «تا کہ پیغمبر تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔»

            یہ وہی مضمون ہے جو سورۃ البقرۃ کی آیت: ۱۴۳ میں آیا ہے:  وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا:   «اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں ایک اُمت ِوسط بنایا ہے، تا کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو»۔ صرف یہ فرق ہے کہ وہاں پہلے امت کا ذکر ہے اور پھر رسول کا، جبکہ یہاں پہلے رسول اور بعد میں امت کا ذکر ہے۔ پس اے اہل ایمان! اس ذمہ داری کو اچھی طرح سے سمجھ لو اور اب بسم اللہ کرو! قدم آگے بڑھاؤ! اور دیکھوتمہارا سب سے پہلا قدم کون سا اٹھنا چاہیے:  

            فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ:   «پس نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو، اور اللہ کے ساتھ چمٹ جاؤ۔»

            اللہ تمہارا حمایتی اور پشت پناہ ہے، تم اس کے دامن سے وابستہ ہو جاؤ۔

            ہُوَ مَوْلٰکُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ:   «وہ تمہارا مولیٰ ہے، تو کیا ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور کیا ہی اچھا ہے مددگار!»

            «مولیٰ» کے مفہوم میں آقا، حمایتی، پشت پناہ، ملجا و ماویٰ اور مرجع کے معانی شامل ہیں۔

            اس رکوع کے مضامین بہت اہم ہیں، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اس کے اہم نکات ایک دفعہ پھر ذہن میں تازہ کر لیے جائیں۔ اس رکوع میں پہلا سبق توحید سے متعلق ہے اور اس کا لب لباب یہ ہے کہ ایک انسان کا مطلوبِ حقیقی، محبوبِ حقیقی اور مقصودِ اصلی صرف اور صرف اللہ ہی ہو۔ اس کے بعد دوسرا نکتہ رسالت سے متعلق ہے۔ محمد ٌرسول اللہ کی بعثت تک رسالت کا سلسلہ صرف دو واسطوں پر مشتمل تھا، یعنی رسولِ ملک اور رسولِ بشر۔ لیکن اب دور محمدی میں ایک تیسرے واسطے کا اضافہ کیا گیا اور اُمت مسلمہ کو بھی ایک مستقل کڑی کے طور پر رسالت کے سلسلۃ الذہب ( سنہری زنجیر) میں منسلک کر دیا گیا ہے۔ اس ذمہ داری کے لیے امت مسلمہ کے انتخاب کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس رکوع (آیت: ۷۸) میں (ہُوَ اجْتَبٰـکُمْ) کے الفاظ سے کیا ہے، جبکہ قبل ازیں آیت: ۷۵ میں رسولِ ملک اور رسولِ بشر کے لیے «اِصطِفاء» کا لفظ استعمال ہوا ہے:  اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ۔ اِصْطِفاء اور اِجْتِباء دونوں الفاظ معنی کے اعتبار سے آپس میں ملتے جلتے ہیں اور خود حضور کے لیے (محمد مصطفی اور احمد مجتبیٰ) بھی مستعمل ہیں۔

            اس رکوع کا تیسرا مضمون «شہادت علی الناس» کے بارے میں ہے۔ اس ضمن میں سورۃ الحج کی آیت: ۷۸ کے الفاظ کی سورۃ البقرۃ کی آیت: ۱۴۳ کے الفاظ سے بہت قریبی مشابہت ہے، بلکہ دونوں مقامات پر الفاظ ایک جیسے ہیں، صرف ترتیب کا فرق ہے۔ سورۃ البقرۃ کی  آیت ۱۴۳ کے الفاظ یہ ہیں:  لِتَـکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا:   جبکہ سورۃ الحج کی آیت: ۷۸ میں الفاظ کی ترتیب یوں ہے:  لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ:   (مضمون اور الفاظ کے اعتبار سے جو نسبت ان دو آیات کی آپس میں ہے بالکل وہی نسبت سورۃ النساء کی آیت: ۱۳۵ کے ان الفاظ:  یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہ کی سورۃ المائدۃ کی آیت: ۸ کے ان الفاظ:  یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالْقِسْطِ: کے ساتھ ہے۔)

            چنانچہ اس اعتبار سے اُمت مسلمہ پر شہادت علی الناس اور پیغامِ رسالت کی دعوت و تبلیغ کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، جس کے بارے میں قیامت کے دن بہت سخت جواب دہی ہو گی۔ اس جواب دہی کے بارے میں سورۃ الاعراف کی یہ آیت بہت واضح ہے: فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ۔ چنانچہ وہاں اُمت ِمسلمہ سے بحیثیتِ مجموعی جواب طلبی ہو گی کہ تم لوگوں نے اپنی اس ذمہ داری کو کس حد تک نبھایا تھا؟ یعنی جو دین تم لوگوں تک آخری نبی کے ذریعے پہنچا تھا کیا تم لوگوں نے اسے پوری نوع انسانی تک پہنچا دیا تھا؟ اور اگر یہ ذمہ داری اُمت نے کما حقہ پوری نہیں کی ہو گی تو پوری امت بحیثیت ِمجموعی مجرم قرار پائے گی۔ اور چونکہ آج اُمت مسلمہ مجموعی طور پر اپنی اس ذمہ داری کا حق ادا نہیں کر رہی ہے اس لیے اپنے اسی جرم کی پاداش میں اجتماعی طور پر ذلیل و خوار ہو رہی ہے۔ اور بقول علامہ اقبال آج اس کی کیفیت یہ ہے کہ:   ع

حمیت نام تھا جس کا، گئی تیمور کے گھر سے!

            دنیا کی ذلت و خواری کی یہی سزا اس سے پہلے بنی اسرائیل کو ان کے اجتماعی جرائم کی پاداش میں مل چکی ہے، جس کا ذکر سورۃ البقرۃ کی آیت: ۶۱ میں اس طرح آیا ہے:  وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ وَبَآؤُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ۔ اس لیے کہ اجتماعی جرائم کی سزا قوموں کو دنیا میں ہی دے دی جاتی ہے۔

            اُمت ِمسلمہ اجتماعی طور پر تو اس سلسلے میں قصور وار ہے ہی، مگر اُخروی محاسبے کے دوران ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت میں بھی جواب دہ ہو گا۔ چنانچہ اس کے لیے ہم میں سے ہر شخص کو فکر مند ہونا چاہیے کہ وہ اپنے اوپر عائد ہونے والے اس فرض کو کس حد تک نبھا رہا ہے اور قیامت کے دن اس نے اس سلسلے میں کیا جواب دینا ہے۔ کیا وہ اپنی دنیا کی زندگی میں صرف دولت کمانے اور جائیدادیں بنانے کے ایک کبھی نہ ختم ہونے والے چکر میں پڑا رہا یا اُس نے دعوتِ قرآن اور تبلیغ دین کے فریضہ کو ادا کرنے کی بھی کوشش کی اور اپنی دولت، صلاحیتوں اور جان کی قربانیوں کے ذریعے استطاعت بھر اس کام میں بھی اپنا حصہ ڈالا؟

*** بارک اللّٰہ لي ولکم في القرآن العظیم، ونفعني وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم ***

UP
X
<>