May 6, 2024

قرآن کریم > النّور >surah 24 ayat 22

وَلا يَأْتَلِ أُوْلُوا الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُوْلِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ 

اور تم میں سے جو لوگ اہلِ خیر ہیں اور مالی وسعت رکھتے ہیں ، وہ ایسی قسم نہ کھائیں کہ وہ رشتہ داروں ، مسکینوں اور اﷲ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہیں دیں گے، اور اُنہیں چاہئے کہ معافی اور درگذر سے کام لیں ۔ کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ ا ﷲ تمہاری خطائیں بخش دے؟ اور اﷲ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے

 آیت ۲۲: وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ: «اور قسم نہ کھا لیں تم میں سے فضیلت اور کشادگی والے لوگ»

            : اَنْ یُّؤتُوْٓا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ: «اس پر کہ وہ (اپنے اموال میں سے) دیں، قرابت داروں کو، مساکین کو اور مہاجرین کو اللہ کی راہ میں»

            یہاں فضیلت اور کشادگی کے روحانی اور مادی دونوں پہلو مراد ہیں، یعنی وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے ایمان، نیکی اور مال و دولت میں فضیلت دے رکھی ہے۔ اس آیت میں اشارہ حضرت ابوبکر صدیق کی طرف ہے۔ بدقسمتی سے آپ کے ایک قریبی عزیز مسطح بن اُثاثہ بھی مذکورہ بہتان کی مہم میں شریک ہو گئے تھے۔ وہ انتہائی غریب اور نادار تھے۔ آپ ان کے خاندان کی کفالت کرتے اور ہر طرح سے ان کی ضروریا ت کا خیال رکھتے تھے۔ حضرت ابوبکرصدیق ان کے اس رویے سے بہت رنجیدہ ہوئے کہ اس شخص نے نہ رشتہ داری کا لحاظ کیا، نہ میرے احسانات کو مد نظر ِرکھا اور بغیر سوچے سمجھے میری بیٹی پر بہتان لگانے والوں کے ساتھ شریک ہو گیا۔ چنانچہ آپ نے غصے میں آ کر قسم کھا لی کہ آئندہ میں اس شخص کی بالکل کوئی مدد نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس قسم پر گرفت فرمائی کہ اس شخص سے جو غلطی ہوئی سو ہوئی، لیکن آپ تو بھلائی اور احسان کی روش ترک کرنے کی قسم مت کھائیں! یہ رویہ کسی طرح بھی آپ کی فضیلت و مرتبت کے شایانِ شان نہیں۔

            : وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا: «اور چاہیے کہ وہ معاف کر دیں اور درگزر سے کام لیں۔»

            : اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ: «کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے؟ اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔»

            خطا تو کسی بھی شخص سے ہو سکتی ہے۔ تم سب لوگ خطائیں کرتے ہو اور اللہ تمہاری خطاؤں کو معاف کرتا رہتا ہے۔ اگر تم لوگ اپنے لیے یہ پسند کرتے ہو کہ اللہ تمہاری خطائیں معاف کر دے تو پھر تمہیں بھی چاہیے کہ تم دوسروں کی خطاؤں کو معاف کر دیا کرو۔ روایات میں آتا ہے کہ یہ آیت سنتے ہی حضرت ابوبکرنے بے ساختہ کہا:  بَلٰی وَاللّٰہِ اِنَّا نُحِبُّ اَنْ تَغْفِرَلَنَا یَا رَبَّـنَا. «کیوں نہیں !اللہ کی قسم، اے ہمارے پروردگار! ہم ضرور یہ پسند کرتے ہیں کہ تو ہمیں معاف کر دے»۔ چنانچہ انہوں نے فوری طور پر اپنی قسم کا کفارہ ادا کیا اور حضرت مسطح سے پہلے کی طرح بھلائی اور احسان کا رویہ اختیار کرنے لگے۔ 

UP
X
<>