May 3, 2024

قرآن کریم > النّور >surah 24 ayat 61

لَيْسَ عَلَي الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْمَرِيْضِ حَرَجٌ وَّلَا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْۢ بُيُوْتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اٰبَاۗىِٕكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اُمَّهٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اِخْوَانِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَعْمَامِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ عَمّٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَخْوَالِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ خٰلٰتِكُمْ اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهُ اَوْ صَدِيْقِكُمْ ۭ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِيْعًا اَوْ اَشْـتَاتًا ۭ فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَيِّبَةً ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ

نہ کسی نابینا کیلئے اس میں کوئی گناہ ہے، نہ کسی پاؤں سے معذور شخص کیلئے کوئی گناہ ہے، نہ کسی بیما رشخص کیلئے کوئی گناہ ہے، اور نہ خود تمہارے لئے کہ تم اپنے گھروں سے کچھ کھالو، یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے، یا اپنی ماؤں کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے، یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے، یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے، یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے، یا اُن گھروں سے جن کی چابیاں تمہارے اختیار میں ہوں ، یااپنے دوستوں کے گھروں سے۔ اس میں بھی تمہارے لئے کوئی گناہ نہیں ہے کہ سب مل کر کھاؤ، یا الگ الگ۔ چنانچہ جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، کہ یہ ملاقات کی وہ بابرکت پاکیزہ دعا ہے جو اﷲ کی طرف سے آئی ہے۔ اﷲ اسی طرح آیتوں کو تمہارے سامنے کھول کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ تم سمجھ جاؤ

 آیت ۶۱: لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ: «کسی اندھے پر کوئی تنگی نہیں»

            یہاں پر اس سوال کا جواب دیا جا رہا ہے کہ اگر کسی خاندان، گھر یا برادری میں کوئی معذور شخص ہو جو معذوری کے سبب اپنی آزاد معاش کا اہل نہ ہو تو ایسے شخص کے لیے شریعت کی ان پابندیوں کے بارے میں کیا حکم ہو گا؟ چنانچہ ایسے لوگوں کے بارے میں یہاں واضح طور پر بتا دیا گیا کہ اگر وہ تمہارے گھر وں میں رہیں تو اس میں مضائقہ نہیں۔

            : وَّلَا عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَّلَا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ: «اور نہ کسی لنگڑے پر کوئی تنگی ہے اور نہ کسی مریض پر کوئی تنگی ہے، اور نہ خود تمہارے اپنے اوپر (اس ضمن میں) کوئی تنگی ہے»

            : اَنْ تَاْکُلُوْا مِنْ بُیُوْتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اٰبَآئِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اُمَّہٰتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اِخْوَانِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخَوٰتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَعْمَامِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ عَمّٰتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخْوَالِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ خٰلٰتِکُمْ: «کہ تم کھانا کھایا کرو اپنے گھروں سے، یا اپنے باپوں کے گھروں سے، یا اپنی ماؤں کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے، یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے، یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے، یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے»

            : اَوْ مَا مَلَکْتُمْ مَّفَاتِحَہُٓ اَوْ صَدِیْقِکُمْ: «یا (ایسے گھروں سے) جن کی چابیاں تمارے پاس ہوں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے۔»

            جیسے کوئی کارخانہ ہو اور اس کے مالک کے پاس اس کی چابیاں ہوں، وہ جب چاہے وہاں جائے اور بیٹھ کر کھائے پئے۔

            : لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْکُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًا: «تمہارے اوپر کوئی حرج نہیں کہ تم سب مل کر کھاؤ یا الگ الگ۔»

            بعض لوگوں نے ان الفاظ سے خواہ مخواہ یہ مفہوم نکالنے کی کوشش کی ہے کہ یہاں مردوں اور عورتوں کو اکٹھے کھانے کی اجازت دی گئی ہے۔ دراصل یہ مجلسی احکام ہیں اور خصوصی طور پر اس حکم میں ایسی صورت حال مراد ہے جس میں کچھ لوگ کھانے کی جگہ پر پہنچ جاتے ہیں جبکہ بعض دوسرے لوگ ابھی نہیں پہنچتے اور پہلے آنے والوں کو اس سے سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ایسی صورت میں اجازت دی گئی ہے کہ جیسے سہولت ہو ویسے کھا پی لیا جائے، سب کا اکٹھے کھانا ہی ضروری نہیں ہے۔ الگ الگ گروہوں میں بھی کھانا کھایا جا سکتا ہے اور الگ الگ افراد بھی کھا سکتے ہیں۔ اس میں خواہ مخواہ تکلف یا تکلیف کی ضرورت نہیں ہے۔ ان مجلسی احکام سے ایسا مفہوم نکالنے کی کوشش کرنا سراسر زیادتی ہے کہ یہاں ستر و حجاب کے احکام بھی نعوذ باللہ معطل کر دیے گئے ہیں اور کھانے پینے کی مخلوط پارٹیوں کی اجازت دے دی گئی ہے۔ معاذ اللہ!

            : فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ: «تو جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے (لوگوں) پر سلام بھیجا کرو»

            یعنی جس گھر میں تم بطور مہمان جا رہے ہو اس میں موجود لوگ تمہارے اپنے ہی لوگ ہیں، وہ تمہارے عزیز اور رشتہ دار ہیں۔ چنانچہ تم اپنے ان لوگوں کو ضرور «السلام علیکم» کہا کرو۔ خود اپنے گھر میں بھی داخل ہو تو «السلام علیکم» کہا کرو۔

            : تَحِیَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً: «یہ دعا ہے اللہ کی طرف سے مبارک بھی اور پاک بھی»

            «السلام علیکم» ایک ایسی با برکت اور پاکیزہ دعا ہے جو ایسے مواقع کے لیے اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو خصوصی طور پر سکھائی ہے۔

            : کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ: «اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیات واضح کر رہا ہے تا کہ تم لوگ عقل سے کام لو۔» 

UP
X
<>