May 3, 2024

قرآن کریم > النّور >surah 24 ayat 62

 إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوهُ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَن لِّمَن شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ 

مومن تو وہ لوگ ہیں جو اﷲ اور اُس کے رسول کو دل سے مانتے ہیں ، اورجب رسول کے ساتھ کسی اجتماعی کام میں شریک ہوتے ہیں تو اُن سے اجازت لئے بغیر کہیں نہیں جانتے۔ (اے پیغمبر !) جو لوگ تم سے اجازت لیتے ہیں ، یہی وہ لو گ ہیں جو اﷲ اور اُس کے رسول کو دل سے مانتے ہیں ، چنانچہ جب وہ اپنے کسی کام کیلئے تم سے اجازت مانگیں تو اُن میں سے جن کو چاہو، اجازت دے دیا کرو، اور اُن کیلئے اﷲ سے مغفرت کی دعا کیا کرو۔ یقینا اﷲ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے

            آخری رکوع جو صرف تین آیات پر مشتمل ہے، اس میں خالص جماعتی زندگی سے متعلق احکام ہیں۔

 آیت ۶۲: اِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ: «مؤمن تو صرف وہی ہیں جو ایمان لائے اللہ پر اور اُس کے رسول پر»

            : وَاِذَا کَانُوْا مَعَہُ عَلٰٓی اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ یَذْہَبُوْا حَتّٰی یَسْتَاْذِنُوْہُ: «اور جب وہ کسی اجتماعی کام کے ضمن میں رسول کے ساتھ ہوتے ہیں تو وہاں سے جاتے نہیں جب تک کہ ان سے اجازت نہ لے لیں۔»

            نبی مکرم کے بعد یہی حکم آپ کے جانشینوں اور اسلامی نظم جماعت کے امراء کے لیے ہے۔ اس حکم کے تحت کسی جماعت کے تمام ارکان کو ایک نظم (discipline) کا پابند کر دیا گیا ہے۔ اگر ایسا نظم و ضبط اس جماعت کے اندر نہیں ہو گا تو کسی کام یا مہم پر جاتے ہوئے کوئی شخص ادھر کھسک جائے گا، کوئی اْدھر چلا جائے گا۔ ایسی صورت حال میں کوئی بھی اجتماعی کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ چنانچہ اس حکم کے تحت لازمی قرار دے دیا گیا کہ کسی مجبوری یا عذر وغیرہ کی صورت میں اگر کوئی رخصت چاہتا ہو تو موقع پر موجود امیر سے باقاعدہ اجازت لے کر جائے۔

            : اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَکَ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یُؤمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ: «یقینا جو لوگ آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں وہی ہیں جو ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور اس کے رسول پر۔»

            : فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْکَ لِبَعْضِ شَاْنِہِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْہُمْ: «پھر جب وہ آپ سے اجازت مانگیں اپنے کسی عذر کی وجہ سے تو آپ ان میں سے جس کو چاہیں اجازت دے دیجیے»

             رخصت دینے کا اختیار تو آپ ہی کے پاس ہے۔ یعنی اسلامی نظم جماعت کے لیے یہ اصول دے دیا گیا کہ اجتماعی معاملات میں رخصت دینے کا اختیار امیر کے پاس ہے۔ چنانچہ امیر یا کمانڈر اپنے مشن کی ضرورت اور درپیش صورت حال کو دیکھتے ہوئے اگر مناسب سمجھے تو رخصت مانگنے والے کو اجازت دے دے اور اگر مناسب نہ سمجھے تو اجازت نہ دے۔ چنانچہ کوئی بھی ماتحت یا مامور شخص اجازت مانگنے کے بعد رخصت کو اپنا لازمی استحقاق نہ سمجھے۔

            : وَاسْتَغْفِرْ لَہُمُ اللّٰہَ: «اور ان کے لیے اللہ سے استغفار کیجیے۔»

            اس لیے کہ وہ اجتماعی کام جس کے لیے حضور اہل ایمان کی جماعت کو ساتھ لے کر نکلے ہیں، آپ کا ذاتی کام نہیں بلکہ دین کا کام ہے۔ اب اگر اس دین کے کام سے کوئی شخص رخصت طلب کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے ذاتی کام کو دین کے کام پر ترجیح دی ہے اور ذاتی کام کے مقابلے میں دین کے کام کو کم اہم سمجھا ہے۔ بظاہر یہ ایک بہت سنجیدہ معاملہ اور نازک صورت حال ہے، اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کریں۔

            : اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ: «یقینا اللہ بہت بخشنے والا، بہت رحم کرنے والا ہے۔»

            یہاں یہ نکتہ نوٹ کیجیے کہ یہی مضمون سورۃ التوبہ میں بھی آیا ہے، لیکن وہاں اس کی نوعیت بالکل مختلف ہے۔ اس فرق کو یوں سمجھئے کہ سورۃ النور ۶ ہجری میں نازل ہوئی تھی، جبکہ سورۃ التوبہ ۹ ہجری میں۔ اسلامی تحریک لمحہ بہ لمحہ اپنے ہدف کی طرف آگے بڑھ رہی تھی۔ حالات بتدریج تبدیل ہو رہے تھے اور حالات کے بدلنے سے تقاضے بھی بدلتے رہتے تھے۔ چنانچہ یہاں (۶ ہجری) فرمایا جا رہا ہے کہ جو لوگ آپ سے باقاعدہ اجازت طلب کرتے ہیں وہ واقعی ایمان والے ہیں، جبکہ تین سال بعد سورۃ التوبہ میں غزوۂ تبوک کے موقع پر فرمایا گیا کہ جو ایمان رکھتے ہیں وہ اجازت لیتے ہی نہیں۔ دراصل وہ ایمرجنسی کا موقع تھا اور اس موقع پر غزوۂ تبوک کے لیے نکلنا ہر مسلمان کے لیے لازم کر دیا گیا تھا۔ ایسے موقع پر کسی شخص کا رخصت طلب کرنا ہی اس بات کی علامت تھی کہ وہ شخص منافق ہے۔ چنانچہ وہاں (سورۃ التوبہ میں) رخصت دینے سے منع فرمایا گیا: عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ: ( آیت:  ۴۳) «اللہ آپ کو معاف فرمائے (یا اللہ نے آپ کو معاف فرما دیا) آپ نے ایسے لوگوں کو کیوں اجازت دے دی؟» اگر آپ اجازت نہ بھی دیتے تو یہ لوگ پھر بھی نہ جاتے لیکن اس سے ان کے نفاق کا پردہ تو چاک ہو جاتا! اس کے برعکس یہاں حضور کو اختیار دیا جا رہا ہے کہ آپ جسے چاہیں رخصت دے دیں۔

            اس مضمون کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھیں تو ایسے مواقع پر کسی اسلامی جماعت کے افراد کے درمیان ہمیں تین سطحوں پردرجہ بندی ہوتی نظر آتی ہے۔ پہلا درجہ ان ارکان کا ہے جو اپنے آپ کو دین کے کام کے لیے ہمہ تن وقف کر چکے ہیں۔ ان کے لیے دنیا کا کوئی کام اس کام سے زیادہ اہم اور ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا ان کے رخصت لینے کا کوئی موقع ومحل ہے ہی نہیں۔ اس سے نچلا درجہ ان ارکان کا ہے جو ایسے مواقع پر کسی ذاتی مجبوری اور ضرورت کے تحت باقاعدہ اجازت لے کر رخصت لیتے ہیں، جبکہ اس سے نچلے درجے پر وہ لوگ ہیں جو اجازت کے بغیر ہی کھسک جاتے ہیں۔ گویا ان کا دین کے اس کام سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ اس درجہ بندی میں اوپر والے زینے کے اعتبار سے اگرچہ درمیان والا زینہ کم تر درجے میں ہے لیکن نچلے زینے کے مقابلے میں بہر حال وہ بھی بہتر ہے۔

            یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے کہ اسلامی جماعتوں کے اجتماعات کے موقع پر بعض رفقاء نہ تو اجتماع میں شامل ہوتے ہیں اور نہ ہی اپنے نظم سے رخصت لیتے ہیں۔ نہ وہ پہلے بتاتے ہیں نہ ہی بعد میں معذرت کرتے ہیں۔ گویا انہیں کوئی احساس ہی نہیں، نہ نظم کی پابندی کا اور نہ اپنی ذمہ داری کا۔ ان سے وہ رفقاء یقینا بہتر ہیں جو اپنا عذر پیش کر کے اپنے امیر سے باقاعدہ رخصت لیتے ہیں۔ لیکن ان سب درجات میں سب سے اونچا درجہ بہرحال یہی ہے کہ دین کے کام کے مقابلے میں دنیا کے کسی کام کو ترجیح نہ دی جائے۔ اس درجے پر فائز لوگوں کے ذاتی کام اللہ کے ذمہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے کاموں کو پس پشت ڈال کر اللہ کے کام کے لیے نکلتے ہیں تو ان کے کاموں کو اللہ خود سنوارتا ہے۔ 

UP
X
<>