May 3, 2024

قرآن کریم > النّور >surah 24 ayat 63

لا تَجْعَلُوا دُعَاء الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاء بَعْضِكُم بَعْضًا قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ 

(اے لوگو !) اپنے درمیان رسول کے بلانے کو ایسا (معمولی) نہ سمجھو جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کو بلا لیا کرتے ہو۔ اﷲ تم میں سے اُن لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ایک دوسرے کی آڑ لے کر چپکے سے کھسک جاتے ہیں ۔ لہٰذا جو لوگ اُس کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں ، اُن کو اس بات سے ڈرنا چاہیئے کہ کہیں اُن پر کوئی آفت نہ آپڑے، یا اُنہیں کوئی دردناک عذاب نہ آپکڑے

 آیت ۶۳: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا: «تم لوگ رسول کے بلانے کو ایسے نہ سمجھ لو جیسے تمہارا آپس میں ایک دوسرے کو بلانا۔»

            یعنی رسول اللہ کا بلاوا غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ کسی دوسر ے شخص کے بلانے پر تم نہ جاؤ تو کوئی بڑی بات نہیں، لیکن رسول کے بلانے پر تم لبیک نہ کہو تو اپنے ایمان کی خیر مناؤ۔ اب ایک بلانا یہ بھی ہے کہ کسی شخص کو اس کے کسی دوست نے اپنے گھر کھانے کی دعوت دی اور دوسری طرف رسول اللہ نے بھی کسی کو اپنے ہاں کھانے کی دعوت دی۔ ایسی صورت میں رسول اللہ کی دعوت کجا اور ایک عام آدمی کی دعوت کجا! --- لیکن ایک بلانا اللہ کے رستے میں جہاد کے لیے بلانا ہے کہ ایک طرف رسول اللہ لوگوں کو بلا رہے ہیں کہ آؤ اللہ کی راہ میں میرے ساتھ چلو اور دوسری طرف کوئی عام شخص کسی دوسرے شخص کو اپنی مدد کے لیے بلا رہا ہے تو رسول اللہ کے بلانے اور ایک عام آدمی کے بلانے میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔

            «دُعَآءَ الرَّسُوْلِ» کا ایک مفہوم «رسول کو پکارنا» بھی ہے۔ یعنی جیسے تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہو، رسول اللہ کو تم ایسے مخاطب نہیں کر سکتے۔ آپ کے ادب اور احترام کے بارے میں سورۃ الحجرات میں بہت واضح ہدایات دی گئی ہیں:  یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہُ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ: «اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر بلند نہ کرو اور نہ آپ سے اونچی آواز میں بات کرو جیسے تم ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات کرتے ہو، کہیں تمہارے سارے اعمال برباد نہ ہو جائیں اور تمہیں پتا بھی نہ چلے»۔ سورۃ الحجرات کے مطالعہ کے دوران اس بارے میں مزید تفصیل سے بات ہو گی۔

            : قَدْ یَعْلَمُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّلُوْنَ مِنْکُمْ لِوَاذًا: «اللہ خوب جانتا ہے تم میں سے ان لوگوں کو جو ایک دوسرے کی اوٹ لے کر کھسک جاتے ہیں۔»

            یہ ایسے لوگوں کا ذکر ہے جن کی نیت میں پہلے سے ہی فتور ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کا معاملہ یوں ہوتا ہے کہ جب لوگ کسی مہم کے لیے نکلے تو یہ بھی نکل پڑے۔ پھر جب دیکھا کہ ان کا نام جانے والوں میں شامل ہو چکا ہے تو اس کے بعد آنکھ بچا کر چپکے سے ایک دوسرے کی آڑ لیتے ہوئے کھسک گئے۔ یا اس کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کسی اجتماع میں شریک ہوئے، وہاں اچانک کسی مہم کے لیے کچھ رضا کاروں کی ضرورت پڑ گئی تو اب اس سے پہلے کہ رضا کاروں کے نام پوچھنے کا مرحلہ آتا، یہ آنکھ بچا کر وہاں سے کھسک گئے۔

            : فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہِٓ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ: «تو جو لوگ رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیے کہ ان پر کوئی آزمائش آ جائے یا ان کو کوئی دردناک عذاب آ پکڑے۔» 

UP
X
<>