May 2, 2024

قرآن کریم > النمل >sorah 27 ayat 44

قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَن سَاقَيْهَا قَالَ إِنَّهُ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّن قَوَارِيرَ قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

اُس سے کہا گیا کہ : ’’ اس محل میں داخل ہو جاؤ،‘‘ اُس نے جو دیکھا تو یہ سمجھی کہ یہ پانی ہے، اس لئے اُس نے (پائینچے چڑھا کر) اپنی پنڈلیاں کھول دیں ۔ سلیمان نے کہا کہ : ’’ یہ تو محل ہے جو شیشوں کی وجہ سے شفاف نظر آرہا ہے۔‘‘ ملکہ بول اُٹھی : ’’ میرے پروردگار ! حقیقت یہ ہے کہ میں نے (اب تک) اپنی جان پر ظلم کیا ہے، اور اب میں نے سلیمان کے ساتھ اﷲ رَبّ العالمین کی فرماں برداری قبول کر لی ہے۔‘‘

آیت ۴۴   قِیْلَ لَہَا ادْخُلِی الصَّرْحَ: ’’اُس سے کہا گیا کہ اب محل میں داخل ہو جاؤ! ‘‘

      فَلَمَّا رَاَتْہُ حَسِبَتْہُ لُجَّۃً وَّکَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْہَا: ’’تو جب اُس نے اس (کے فرش) کو دیکھا تو اسے گہرا پانی سمجھا اور اپنی دونوں پنڈلیاں کھول دیں۔‘‘

      قَالَ اِنَّہٗ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِیْرَ: ’’سلیمانؑ نے کہا: یہ تو ایسا محل ہے جو مرصع ّہے شیشوں سے۔‘‘

      یعنی وہ شیشے کا چکنا فرش تھا اور ملکہ نے جب اس میں اپنا عکس دیکھاتو اسے پانی سمجھ کر پنڈلیوں سے کپڑا اوپر اٹھا لیا کہ شاید آگے جانے کے لیے اس پانی سے ہو کر گزرنا ہے۔ بہر حال حضر ت سلیمان نے اسے اصل حقیقت سے آگاہ کیا۔ اس سے دراصل اسے احساس دلانا مقصود تھا کہ جو نعمتیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دے رکھی ہیں، وہ تمہارے حاشیہ خیال میں بھی نہیں ہیں۔

      قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ: ’’اُس نے کہا: اے میرے پروردگار! یقینا میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اب میں نے سلیمانؑ کے ساتھ اللہ کی اطاعت اختیار کی ہیجو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘

      حضرت سلیمان کا واقعہ یہاں پر اختتام پذیر ہوا۔ سورت کا یہ حصہ قصص النبییّن کے انداز میں ہے۔ اس کے بعد حضرت صالح اور حضرت لوط کے واقعات میں انباء الرسل کا انداز پایا جاتا ہے۔

UP
X
<>