May 5, 2024

قرآن کریم > النمل >sorah 27 ayat 66

بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الآخِرَةِ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّنْهَا بَلْ هُم مِّنْهَا عَمِونَ

بلکہ آخرت کے بارے میں ان (کافروں ) کا علم بے بس ہو کر رہ گیا ہے، بلکہ وہ اُس کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں ، بلکہ وہ اُس کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں ، بلکہ اُس سے اندھے ہو چکے ہیں

آیت ۶۶   بَلِ ادّٰرَکَ عِلْمُہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ: ’’بلکہ تھک ہار کر رہ گیا ہے ان کا علم آخرت کے بارے میں۔‘‘

      یعنی یہ لوگ آخرت کی حقیقت کو سمجھ نہیں پا رہے۔

      بَلْ ہُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْہَا بَلْ ہُمْ مِّنْہَا عَمُوْنَ: ’’بلکہ اس کے بارے میں وہ شک میں مبتلا ہیں، بلکہ اس کی طرف سے وہ اندھے ہو چکے ہیں۔‘‘

      اگرچہ یہ لوگ زبانی طور پر آخرت کا اقرار بھی کرتے ہیں اور دوبارہ جی اٹھنے پر بظاہر ایمان بھی رکھتے ہیں، لیکن عملاً وہ اس کے منکر ہیں۔ عملاً انہیں آخرت کی زندگی کو سنوارنے یا قیامت کے احتساب سے بچنے کی کوئی فکر نہیں ہے۔ اس دنیا میں اپنے کل کی فکر انسان کو ہر وقت دامن گیر رہتی ہے، کہ کل کیا کھانا ہے اور باقی ضروریات کیسے پوری کرنی ہیں۔ اس لیے کہ اسے کل کے آنے پر پختہ یقین ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر اسے واقعی یقین ہو کہ مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندہ ہونا ہے اور یہ کہ آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے تو اس کے لیے وہ لازماً فکر مند بھی ہو گا اور اسے بہتر بنانے کی کوشش بھی کرے گا۔ لیکن کسی انسان کو عملاً اگر اس کی فکر نہیں ہے اور وہ اس کے لیے کوشش بھی نہیں کر رہا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسے اس کے بارے میں یقین نہیں ہے۔

UP
X
<>