May 8, 2024

قرآن کریم > القصص >sorah 28 ayat 59

وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَى حَتَّى يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا رَسُولاً يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَى إِلاَّ وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ

اور تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ وہ بستیاں یونہی ہلاک کر ڈالے جب تک اُس نے اُن بستیوں کے مرکزی مقام پر کوئی رسول نہ بھیجا ہو جو اُن کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائے، اور ہم بستیوں کو اُس وقت تک ہلاک کرنے والے نہیں ہیں جب تک اُن کے باشندے ظالم نہ بن جائیں

آیت ۵۹   وَمَا کَانَ رَبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّہَا رَسُوْلاً: ’’اور نہیں تھاآپ کا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا، جب تک کہ وہ ان کی مرکزی بستی میں کوئی رسول نہ بھیج دیتا‘‘

      یعنی اللہ تعالیٰ کسی بستی تک دعوتِ حق پہنچائے بغیر اس پر عذاب نہیں بھیجتا۔ اس سلسلے میں اللہ کا اصول اور طریقہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ پہلے متعلقہ قوم کی طرف باقاعدہ ایک رسول مبعوث کیا جاتا جو حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا واضح کر کے اس قوم پر حجت قائم کر دیتا۔ پھر اس کے بعد بھی جو لوگ اپنے کفر پر اَڑے رہتے انہیں عذاب کے ذریعے نیست و نابود کر دیا جاتا۔ یہی اصول سورۂ بنی اسرائیل میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے: (وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً) ’’اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ کوئی رسول نہ بھیج دیں‘‘۔ آیت زیر مطالعہ میں اس اصول کی مزید وضاحت اس طرح کی گئی ہے کہ کسی قوم کی طرف رسول بھیجنے کا مطلب یہ نہیں کہ اس علاقے کے ہر ہر گاؤں اور ہر ہر بستی میں رسول مبعوث کیے جاتے تھے بلکہ اس کا طریقہ اور معیار یہ رہا ہے کہ متعلقہ قوم کے مرکزی شہر میں رسول بھیج دیا جاتا تھا۔

      یَّتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِنَا: ’’جو اُن کو پڑھ کر سناتا تھا ہماری آیات۔ ‘‘

      وَمَا کُنَّا مُہْلِکِی الْقُرٰٓی اِلَّا وَاَہْلُہَا ظٰلِمُوْنَ: ’’اور ہم ہرگز ان بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں تھے مگر اس بنا پر کہ ان کے باسی ظالم تھے۔ ‘‘

      ’’ظالم‘‘ کا لفظ مشرک، کافر، گنہگار اور ظلم و ناانصافی کرنے والے، سب کو محیط ہے۔

UP
X
<>