May 18, 2024

قرآن کریم > القصص >sorah 28 ayat 80

وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللَّهِ خَيْرٌ لِّمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلا يُلَقَّاهَا إِلاَّ الصَّابِرُونَ

اور جن لوگوں کو (اﷲ کی طرف سے) علم عطا ہوا تھا، اُنہوں نے کہا : ’’ تم پر افسوس ہے (کہ تم ایسا کہہ رہے ہو) ۔ اﷲ کا دیا ہوا ثواب اُس شخص کیلئے کہیں زیادہ بہتر ہے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے، اور وہ اُنہی کو ملتا ہے جو صبر سے کام لیتے ہیں ۔‘‘

آیت ۸۰   وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ: ’’اور کہا ان لوگوں نے جنہیں علم عطا ہوا تھا‘‘

      جیسا کہ قبل ازیں آیت ۷۶ کے ضمن میں بھی بیان ہوچکا ہے کہ اس معاشرے میں کچھ نیک سرشت لوگ اور اصحابِ علم و فہم بھی تھے جنہیں دُنیوی زندگی کے ٹھاٹھ باٹھ اور زیب و زینت کی اصل حقیقت معلوم تھی۔ ایسے لوگوں نے قارون کے ٹھاٹھ باٹھ سے متاثر ہونے والے لوگوں کو سمجھاتے ہوئے کہا:

      وَیْلَکُمْ ثَوَابُ اللّٰہِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا: ’’افسوس ہے تم پر! اللہ کا (عطا کردہ) ثواب (اس سے) کہیں بہتر ہے اُس شخص کے لیے جو ایمان لایا اور اُس نے نیک عمل کیے۔‘‘

      یعنی تم خواہ مخواہ اس کی شان و شوکت کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہو۔ اگر تم حقیقی ایمان اور ِعمل صالح کی شرائط پر پورے اترو تو اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا و آخرت میں جن نعمتوں سے نوازے گا وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہوں گی۔ سورۃ النور کی آیت ۵۵ میں اس ضمن میں اللہ کے وعدے کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے: (وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ…) ’’ اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو تم میں سے حقیقی طور پر ایمان لائیں اور نیک اعمال کریں کہ انہیں وہ زمین میں ضرور حکومت و خلافت سے نوازے گا…‘‘ ا س کے بعد آخرت میں ایسے لوگوں کو جو اجر و ثواب ملنے والا ہے اور جنت میں ان پر جن نعمتوں کی بارش ہونے والی ہے اس کا تو اس دُنیا میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

      وَلَا یُلَقّٰہَآ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ: ’’اور وہ نہیں ملے گامگر ان لوگوں کو جو صبر کرنے والے ہیں ۔‘‘

      آخرت کا وہ اجر و ثواب صرف انہی لوگوں کو حاصل ہو گا جو دنیا میں صبر و قناعت سے گزر بسر کرتے رہے اور اپنی ضروریات سے زیادہ کی ہوس سے بچتے رہے۔ اس سلسلے میں نبی اکرم کا فرمان ہے: ((مَا قَلَّ وَ کَفٰی خَیْــرٌ مِمَّا کَثُرَ وَاَلْھٰی)) ’’جو چیز کم ہو لیکن بقدرِ کفایت ہو وہ اس سے بہتر ہے جو بہت زیادہ ہو لیکن غفلت میں مبتلا کر دے‘‘۔ کیونکہ دولت کی بہتات ہو گی تو اس کے سبب انسان غفلت کا شکار ہو جائے گا۔ اس کے مقابلے میں اگر آج کا کھانا کھا کر آدمی کل کے کھانے کے لیے اللہ پر توکل ّکرے گا تو وہ اللہ کو بھول نہیں پائے گا۔

UP
X
<>