May 17, 2024

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 52

 فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ 

پھر جب عیسیٰ نے محسوس کیا کہ وہ کفر پر آمادہ ہیں تو انہوں نے (اپنے پیرووں سے) کہا : ’’ کون کون لوگ ہیں جو اﷲ کی راہ میں میرے مددگار ہوں ؟ ‘‘ حواریوں نے کہا : ’’ ہم اﷲ (کے دین) کے مددگار ہیں، ہم اﷲ پر ایمان لاچکے ہیں، اور آپ گواہ رہئے کہ ہم فرماں بردار ہیں

 آیت 52:    فَلَمَّـآ اَحَسَّ عِیْسٰی مِنْہُمُ الْـکُفْرَ:  «پس جب عیسٰی  نے ان کی طرف سے کفر کو بھانپ لیا»

             قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ:  «تو انہوں نے پکار لگائی کہ کون ہے میرا مددگار اللہ کی راہ میں؟»

            یہاں پھر درمیانی عرصے کا ذکر چھوڑ دیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کو دعوت دیتے ہوئے حضرت مسیح کو کئی سال بیت چکے تھے۔ اس دعوت سے جب علماء یہود کی مسندوں کو خطرہ لاحق ہو گیا اور ان کی چودھراہٹیں خطرے میں پڑ گئیں تو انہوں نے حضرت مسیح کی شدید مخالفت کی۔ اُس وقت تک یہودیوں پر ان کے علماء کا اثر ورسوخ بہت زیادہ تھا۔ جب آپ نے ان کی طرف سے کفر کی شدت کو محسوس کیا کہ اب یہ ضد اور مخالفت پر تل گئے ہیں۔ تو آپ نے ایک پکار لگائی‘ ایک ندا دی‘ ایک دعوتِ عام دی کہ کون ہیں جو اللہ کی راہ میں میرے مددگار ہیں؟ یعنی اب جو کشاکش ہونے والی ہے‘ جو تصادم ہونے والا ہے اس میں ایک «حزب اللہ» بنے گی اور ایک «حزب الشیطان» ہو گی۔ اب کون ہے جو میرا مددگار ہو اللہ کی راہ میں اس جدوجہد اور کشاکش میں؟ دین کا کام کرنے کے لیے یہی اصل اساس ہے۔ اسی بنیاد پر کوئی شخص اٹھے کہ میں دین کا کام کرنا چاہتا ہوں‘ کون ہے کہ جو میرا ساتھ دے؟ یہ جماعت سازی کا ایک بالکل طبعی طریقہ ہوتا ہے۔ ایک داعی اٹھتا ہے اور اُس داعی پر اعتماد کرنے والے‘ اُس سے اتفاق کرنے والے لوگ اس کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ یہ لوگ ذاتی اعتبار سے اُس کے ساتھی نہیں ہوتے‘ اس کی حکومت اور سرداری قائم کرنے کے لیے نہیں‘ بلکہ اللہ کی حکومت قائم کرنے کے لیے اور اللہ تعالیٰ کے دین کے غلبہ کے لیے اس کا ساتھ دیتے ہیں۔

             قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ: «کہا حواریوں نے کہ ہم ہیں اللہ کے مددگار!»

            «حواری» کے اصل معنی دھوبی کے ہیں جو کپڑے کو دھو کر صاف کر دیتا ہے۔ یہ لفظ پھر آگے بڑھ کر اپنے اخلاق اور کردار کو صاف کرنے والوں کے لیے استعمال ہونے لگا۔ حضرت مسیح کی تبلیغ زیادہ تر گلیلی جھیل کے کناروں پر ہوتی تھی‘ جو سمندر کی طرح بہت بڑی جھیل ہے۔ آپ کبھی وہاں کپڑے دھونے والے دھوبیوں میں تبلیغ کرتے تھے اور کبھی مچھلیاں پکڑنے والے مچھیروں کو دعوت دیتے تھے۔ آپ ان سے فرمایا کرتے تھے کہ اے مچھلیوں کا شکار کرنے والو! آؤ‘ میں تمہیں انسانوں کا شکار کرنا سکھاؤں»۔ آپ نے دھوبیوں میں تبلیغ کی توان میں سے کچھ لوگوں نے اپنے آپ کو پیش کر دیا کہ ہم آپ کی جدوجہد میں اللہ کے مددگار بننے کو تیار ہیں۔ یہ آپ کے اوّلین ساتھی تھے جو «حواری» کہلاتے تھے۔ اس طرح حواری کا لفظ ساتھی کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔

             اٰمَنَّا بِاللّٰہِ:  «ہم ایمان لائے اللہ پر۔»

             وَاشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ:  «اور آپ بھی گواہ رہیے گا کہ ہم اللہ کے فرماں بردار ہیں»۔ 

UP
X
<>