May 17, 2024

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 59

إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ

اﷲ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم جیسی ہے ؛ اﷲ نے انہیں مٹی سے پیداکیا، پھر ان سے کہا : ’’ہوجا ‘‘ بس وہ ہوگئے

آیت 59:    اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ:  «بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے۔»

             خَلَقَہ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ:  «اُس کو مٹی سے بنایا پھر کہا ہو جا تو وہ ہو گیا۔»

            قرآن مجید کی یہ آیت ان لوگوں کے حق میں دلیل ہے جو حضرت آدم کی خصوصی تخلیق (special creation)  کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک حضرت آدم کا چناؤ ارتقاء (evolution)  کے نتیجے میں کسی نوع (species)  کے وجود میں آنے کے بعد اس کے ایک فرد کی حیثیت سے نہیں ہوا بلکہ براہِ راست مٹی سے تخلیق کیے گئے۔ تخلیق آدم کے ضمن میں یہ دونوں نظریے ملتے ہیں اور دونوں کے بارے میں دلائل بھی موجود ہیں۔ ابھی یہ کوئی طے شدہ حقائق نہیں ہیں۔ ہم غور وفکر کر سکتے ہیں کہ قرآن مجید کے کس مقام پر کس نظریے کے لیے کوئی تائید یا توثیق ملتی ہے۔ یہاں فرمایا کہ «اللہ کے نزدیک تو عیسٰی  کی مثال ایسے ہی ہے جیسے آدم کی، اسے مٹی سے بنایا اور کہا ہو جا تو وہ ہو گیا»۔ تو اب اگر آدم کا معاملہ خصوصی تخلیق کا ہے کہ بغیر باپ کے اور بغیر ماں کے پیدا ہو گئے تو کیا وہ «الٰہ» بن گئے؟ ان کا خالق تو اللہ ہے۔ اسی طرح حضرت عیسٰی  بغیر باپ کے پیدا ہوئے تو خدا کیسے بن گئے؟ ان کی والدہ کو حمل ہوا ہے‘ نو مہینے ماں کے پیٹ میں رہے ہیں‘ پھر ان کی پیدائش ہوئی ہے۔ تو تخلیق میں ان کا معاملہ اعجاز کے اعتبار سے حضرت آدم سے تو کم ہی رہا ہے۔ اور اس سے کم تر معاملہ حضرت یحییٰ  کا ہے  کہ انتہائی بڑھاپے کو پہنچے ہوئے حضرت زکریا اور ان کی اہلیہ جو ساری عمر بانجھ رہیں‘ اللہ نے ان کو اولاد دے دی۔ تو یہ سارے معجزات ہیں‘ اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے۔ اس میں کسی کی الوہیت کی دلیل نہیں نکلتی۔ 

UP
X
<>