April 26, 2024

قرآن کریم > لقمان >sorah 31 ayat 17

يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُمُورِ

بیٹا! نماز قائم کرو، اور لوگوں کو نیکی کی تلقین کرو، اور برائی سے روکو، اور تمہیں جو تکلیف پیش آئے، اُس پر صبر کرو۔ بیشک یہ بڑی ہمت کا کام ہے

آیت ۱۷   یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ: ’’ اے میرے بچے! نماز قائم کرو‘‘

      نماز اللہ کے ذکر کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ نمازکی اقامت یا پابندی سے مقصود بنیادی طور پر یہی ہے کہ اللہ پر ایمان کی کیفیت کو ہر وقت مستحضر رکھا جائے، ورنہ انسان کانفس اسے غلط راستے پر ڈال دے گااور شیطان اسے ورغلانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ سورۃ العنکبوت کی آیت: ۴۵ میں نماز کا مقصد یہی بتایا گیا ہے کہ یہ غلط کاموں سے روکتی ہے:   (اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ) ’’تلاوت کرتے رہا کریں اُس کی جو وحی کی گئی ہے آپ کی طرف کتاب میں سے اور نماز قائم کریں ، یقینا نماز روکتی ہے بے حیائی سے اور برے کاموں سے‘‘۔ چنانچہ حضرت لقمان کی نصیحت کا مفہوم یہ ہے کہ بیٹا! اللہ کو محض پہچان لینا ہی کافی نہیں بلکہ اسے ہر وقت یاد رکھنا بھی ضروری ہے، ورنہ انسان کا سیدھے راستے سے بھٹکنے کا اندیشہ ہر وقت رہے گا۔ اب ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ حضرت لقمان کے ہاں نماز کی کیا صورت تھی مگر مراد اس سے یہی ہے کہ انسان کو اپنے شب و روز میں کوئی ایسا معمول ضرور اپنانا چاہیے جس سے اللہ کو ہر وقت یاد رکھا جائے۔

        وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ: ’’اور نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو‘‘

      یہ ان کی چوتھی نصیحت ہے۔ دراصل یہ انسان کی انسانیت، اس کی شرافت اور مروّت کا نا گزیر تقاضا ہے کہ وہ اپنے ابنائے جنس کی بھلائی کے لیے حسب استطاعت کوشاں رہے۔ انسانیت کی سب سے بڑی خدمت جو کوئی انسان سر انجام دے سکتا ہے وہ یہی ہے کہ وہ معاشرے میں رہتے ہوئے بھلائی کا پرچار کرے اور برائیوں سے لوگوں کو روکے۔

        وَاصْبِرْ عَلٰی مَـآ اَصَابَکَ: ’’اور جو بھی تکلیف تمہیں پہنچے اس پر صبر کرو!‘‘

      یہ گویا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عمل کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے۔ اس لیے کہ حق ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے، اپنے اعمال اور رویے ّپر تنقید کسی کو بھی پسند نہیں ۔ چنانچہ جب آپ حق کی بات کریں گے، لوگوں کے غلط طرز عمل پر تنقید کریں گے، کسی کو برائی سے رک جانے کی نصیحت کریں گے، تو لوگ آپ کو برا بھلا بھی کہیں گے اور آپ پر کیچڑ بھی اچھالنے کی کوشش کریں گے۔ حتیٰ کہ وہ آپ کی جان کے درپے بھی ہو جائیں گے۔اس لیے اگر آپ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا علم َبلند کر کے حق کا راستہ اپنانا ہے تو پھر آپ کو صبر کرنا بھی سیکھنا ہو گا اور مشکل سے مشکل حالات میں استقامت کا مظاہرہ بھی کرنا ہو گا۔

        اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ: ’’یقینا یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔‘‘

      غور کریں تو حضرت لقمان کی ان چارنصیحتوں میں وہی چار باتیں ایک دوسرے انداز میں بیان ہوئی ہیں جن کا ذکر سورۃ العصر میں آیا ہے۔ سورۃ العصر میں یہ باتیں یوں بیان ہوئی ہیں : (اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ) ’’سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، انہوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور ایک دوسرے کو صبرکی تلقین کی‘‘۔ سورۃ العصر میں مذکور ان چار نکات یعنی ایمان، اعمالِ صالحہ، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا اگر حضرت لقمان کی نصائح کے مندرجات سے تقابل کریں تو ’’ایمان‘‘ کی جگہ حضرت لقمان نے توحید کا ذکر کیا ہے، اعمالِ صالحہ میں سے نماز اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر ہے۔ تواصی بالحق کی جگہ انہوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکی نصیحت کی ہے جبکہ ’’صبر‘‘ کا ذکر دونوں جگہ پر ہی موجود ہے۔ گویا دونوں مقامات پر استعمال ہونے والی اصطلاحات اگرچہ مختلف ہیں لیکن مضمون ایک ہی ہے۔

UP
X
<>