April 27, 2024

قرآن کریم > السجدة >sorah 32 ayat 10

وَقَالُوا أَئِذَا ضَلَلْنَا فِي الأَرْضِ أَئِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ بَلْ هُم بِلِقَاء رَبِّهِمْ كَافِرُونَ

اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ : ’’ کیا جب ہم زمین میں رَل کر کھو جائیں گے، تو کیا اُس وقت ہم کسی نئے جنم میں پیدا ہوں گے؟‘‘ بات دراصل یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے پروردگار سے جاملنے کا انکار کرتے ہیں

 آیت ۱۰   وَقَالُوْٓا ءَاِذَا ضَلَلْنَا فِی الْاَرْضِ ءَاِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ: ’’اور یہ کہتے ہیں : کیا جب ہم زمین میں تحلیل ہو جائیں گے، تو کیا پھر ہم ایک نئی خلقت میں ڈھالے جائیں گے؟‘‘

      اس اعتراض کے حوالے سے پرانے زمانے کے کفار کا اندازِ گفتگو تو سیدھا سادہ تھا کہ جب ہم مٹی میں مل کر مٹی ہو جائیں گے تو ہمیں کیسے دوبارہ جلا اٹھایا جائے گا؟ لیکن آج کا ’’روشن خیال‘‘ نوجوان اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا کر یوں پیش کرتا ہے کہ جب ہمارے جسموں کے ایٹمز (atoms) بھی منتشر ہو جائیں گے، جب ہم مٹی میں مل کر کھاد بن جائیں گے، کھاد سے ہمارے ذرّات پودوں میں منتقل ہوجائیں گے، ان پودوں کو جانور کھائیں گے اور پھر ان جانوروں سے نہ معلوم کس کس شکل میں ہمارے جسموں کے تحلیل شدہ atoms کہاں کہاں پہنچیں گے توایسی صورت میں انسانی اجسام کے گم گشتہ اجزاء کیونکر اکٹھے کیے جا سکیں گے؟ ایسی دور کی کوڑی لانے سے پہلے ایسے احمقوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ جس اللہ نے پہلی مرتبہ زمینی اجزاء سے ان لوگوں کو ان کے وجودوں کے ساتھ پیدا کیا ہے، کیا وہ انہیں دوبارہ پیدا نہیں کر سکے گا؟

      بَلْ ہُمْ بِلِقَآیِٔ رَبِّہِمْ کٰفِرُوْنَ: ’’بلکہ (حقیقت میں ) یہ لوگ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں ۔‘‘

      دراصل یہ لوگ اپنے کرتوتوں کے سبب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کے تصور سے گریزاں ہیں ۔اس بنا پر وہ قیامت کے دن کی اس ملاقات ہی کو جھٹلانا چاہتے ہیں ، لیکن اس کے لیے بہانہ یہ بنا رہے ہیں کہ زمین میں گل سڑ جانے کے بعد انسانوں کا دوبارہ زندہ ہو جانا عقلی طور پر ممکن نظر نہیں آتا۔اس کے برعکس اگر کوئی شخص صاحب ایمان ہے اور وہ اپنے دل میں اللہ کے لیے خلوص اور محبت کے جذبات رکھتا ہے تو اسے لازماًیہ امید ہو گی کہ اللہ اس کے ساتھ رحمت اور شفقت کا معاملہ فرمائے گا۔ ایسے شخص کو ’’دل را بدل راہیست‘‘ (دل کو دل سے راہ ہوتی ہے) کے مصداق اللہ تعالیٰ سے ملنے کا اشتیاق بھی ہو گا۔ 

UP
X
<>