May 3, 2024

قرآن کریم > الأحزاب >sorah 33 ayat 18

قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الْمُعَوِّقِينَ مِنكُمْ وَالْقَائِلِينَ لإِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ إِلَيْنَا وَلا يَأْتُونَ الْبَأْسَ إِلاَّ قَلِيلاً

اﷲ اُن لوگوں کو خوب جانتا ہے جو (جہاد میں ) رُکاوٹ ڈالتے ہیں ، اور اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ : ’’ ہمارے پاس چلے آؤ‘‘ اور خود لڑائی میں آتے نہیں ، اور آتے ہیں تو بہت کم

آیت ۱۸   قَدْ یَعْلَمُ اللّٰہُ الْمُعَوِّقِیْنَ مِنْکُمْ: ’’ اللہ خوب جانتا ہے تم میں سے ان لوگوں کو جو روکنے والے ہیں‘‘

        جیسا کہ قبل ازیں وضاحت کی جا چکی ہے کہ مدینہ کی دو اطراف تو قدرتی رکاوٹوں کی وجہ سے محفوظ تھیں، جبکہ عقب میں بنو قریظہ کی گڑھیاں تھیں اور جب تک انہوں نے معاہدے کی اعلانیہ خلاف ورزی نہیں کی تھی تب تک ان کی طرف سے بھی بظاہر کوئی خطرہ نہیں تھا۔ چنانچہ مسلمانوں کی اکثریت حملہ آور لشکر کے سامنے خندق کی اندرونی جانب مورچہ بند تھی اور جنگ کا اصل محاذ وہی مقام تھا۔ منافقین نہ صرف خود اس محاذ کی طرف جانے سے کتراتے تھے بلکہ دوسروں کو بھی روکتے تھے کہ اس طرف مت جاؤ۔

        وَالْقَآئِلِیْنَ لِاِخْوَانِہِمْ ہَلُمَّ اِلَیْنَا: ’’اور اپنے بھائیوں سے یہ کہنے والے ہیں کہ ہماری طرف آ جاؤ!‘‘

        وہ اپنے دوسرے بھائی بندوں کو بھی ناصحانہ انداز میں سمجھاتے تھے کہ ہمارے پاس آ جاؤ اور ہماری طرح تم بھی اپنے گھروں میں چھپے رہو اور محاذ کی طرف مت جاؤ۔

        وَلَا یَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِیْلًا: ’’اور وہ نہیں آتے جنگ کی طرف مگر بہت تھوڑی دیر کے لیے۔‘‘

        اگر وہ دکھاوے کے لیے محاذِ جنگ پر آتے بھی تھے تو حیلے بہانوں سے واپس جانے کی فکر میں رہتے تھے۔ 

UP
X
<>