May 4, 2024

قرآن کریم > الأحزاب >sorah 33 ayat 19

أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ فَإِذَا جَاء الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَى عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ أُوْلَئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا

(اور وہ بھی) تمہارے ساتھ لالچ رکھتے ہوئے۔ چنانچہ جب خطرے کا موقع آجاتا ہے تو وہ تمہاری طرف چکرائی ہوئی آنکھوں سے اس طرح دیکھتے ہیں جیسے کسی پر موت کی غشی طاری ہو رہی ہو۔ پھر جب خطرہ دور ہو جاتا ہے تو تمہارے سامنے مال کی حرص میں تیز تیز زبانیں چلاتے ہیں ۔ یہ لوگ ہر گز ایمان نہیں لائے ہیں ، اس لئے اﷲ نے ان کے اعمال ضائع کر دیئے ہیں ۔ اور یہ بات اﷲ کیلئے بہت آسان ہے

آیت ۱۹    اَشِحَّۃً عَلَیْکُمْ: ’’(اے مسلمانو!) تمہارا ساتھ دینے میں یہ سخت بخیل ہیں۔‘‘

        فَاِذَا جَآءَ الْخَوْفُ رَاَیْتَہُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ: ’’تو جب خطرہ پیش آ جاتا ہے تو (اے نبی !) آپ ان کو دیکھتے ہیں کہ وہ آپ کی طرف اس طرح تاک رہے ہوتے ہیں‘‘

        تَدُوْرُ اَعْیُنُہُمْ کَالَّذِیْ یُغْشٰی عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ: ’’کہ ان کی آنکھیں گردش کرتی ہیں اُس شخص کی (آنکھوں کی) طرح جس پر موت کی غشی طاری ہو۔‘‘

        اللہ کے راستے میں جہاد کی خبر سنتے ہی انہیں اپنی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں اور خطرات کے اندیشوں کی وجہ سے ان پر نزع کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔

        فَاِذَا ذَہَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْکُمْ بِاَلْسِنَۃٍ حِدَادٍ: ’’پھر جب خطرہ جاتا رہتا ہے تو وہ تم لوگوں پر چڑھ دوڑتے ہیں اپنی تیز زبانوں سے‘‘

        سَلَقَ یَسْلُقُ سَلْقًا کے معنی ہیں کسی پر ہاتھ یا زبان سے حملہ آور ہونا۔ فقرے کا لغوی مفہوم یہ ہے کہ وہ لوگ آپؐ پر حملہ آور ہوتے ہیں اپنی لوہے کی زبانوں سے۔ یہ گویا محاورہ کا اسلوب ہے، جیسے اردو میں ’’قینچی کی طرح زبان کاچلنا‘‘ ایک محاورہ ہے۔ خطرہ گزر جانے کے بعد ان کی زبانیں آپ لوگوں کے سامنے قینچی کی طرح چلنے لگ جاتی ہیں اور یہ اپنے ایمان کا اظہار اور مسلمانوں پر تنقید کرنے لگ جاتے ہیں۔

        اَشِحَّۃً عَلَی الْخَیْرِ: ’’لالچ کرتے ہوئے مال پر۔‘‘

        ان کی خواہش ہو تی ہے کہ سارا مالِ غنیمت انہیں ہی مل جائے۔

        اُولٰٓئِکَ لَمْ یُؤْمِنُوْا فَاَحْبَطَ اللّٰہُ اَعْمَالَہُمْ:’’یہ وہ لوگ ہیں جو حقیقت میں ایمان نہیں لائے تو اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دیے۔‘‘

        وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا: ’’اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔‘‘

        یہ لوگ زبان سے ایمان کادعویٰ تو کرتے ہیں لیکن دل سے ہرگز ایمان نہیں لائے۔ انہوں نے ا س حالت میں جو بھی نیک اعمال کیے ہیں ان کی انہیں کوئی جزا نہیں ملے گی۔ ظاہر ہے یہ لوگ ایمان کے دعوے کے ساتھ نمازیں بھی پڑھتے تھے اوروہ بھی مسجد نبوی ؐکے اندر رسول اللہ کی اقتدا میں۔ لیکن ان کے یہ سارے اعمال ضائع ہو چکے ہیں ، کیونکہ منافقت کی کیفیت میں کیا گیا نیکی اور بھلائی کاکوئی عمل بھی اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ۔ 

UP
X
<>