May 4, 2024

قرآن کریم > الأحزاب >sorah 33 ayat 20

يَحْسَبُونَ الأَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوا وَإِن يَأْتِ الأَحْزَابُ يَوَدُّوا لَوْ أَنَّهُم بَادُونَ فِي الأَعْرَابِ يَسْأَلُونَ عَنْ أَنبَائِكُمْ وَلَوْ كَانُوا فِيكُم مَّا قَاتَلُوا إِلاَّ قَلِيلاً

وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ (دُشمنوں کے) لشکر ابھی گئے نہیں ہیں ۔ اور اگر وہ (دوبارہ) آجائیں تو ان کی خواہش یہ ہوگی کہ وہ دیہات میں جاکر رہیں ، (اور وہیں بیٹھے ہوئے) تمہاری خبریں معلوم کرتے رہیں ۔ اور اگر تمہارے درمیان رہے بھی تو لڑائی میں تھوڑا ہی حصہ لیں گے

آیت ۲۰    یَحْسَبُوْنَ الْاَحْزَابَ لَمْ یَذْہَبُوْا: ’’وہ لشکروں کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ ابھی وہ گئے نہیں ہیں۔‘‘

        اگرچہ کفار کے تمام لشکر واپس جا چکے ہیں مگر ان پر ایسا خوف طاری ہے کہ انہیں یقین ہی نہیں آتا کہ وہ چلے گئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لشکر کسی حکمت عملی کے تحت تھوڑی دیر کے لیے منظر سے اوجھل ہوئے ہیں اور پھر کچھ ہی دیر کے بعد وہ دوبارہ آ جائیں گے۔ جیسے کسی خوفناک حادثے کی دہشت دیر تک ایک شخص کے اعصاب پر سوار رہتی ہے اسی طرح ان کے اعصاب پر ابھی تک ان لشکروں کا خوف مسلط ہے۔

        وَاِنْ یَّاْتِ الْاَحْزَابُ یَوَدُّوْا لَوْ اَنَّہُمْ بَادُوْنَ فِی الْاَعْرَابِ یَسْاَلُوْنَ عَنْ اَنْبَـــآئِکُمْ: ’’اور اگر لشکر (دوبارہ) حملہ آور ہو جائیں تو ان کی خواہش ہو گی کہ وہ ّبدوؤں کے ساتھ صحرا میں رہ رہے ہوتے(اور وہیں سے) تمہاری خبریں معلوم کرتے رہتے۔‘‘ م

        ایسی صورت میں یہ لوگ خواہش کریں گے کہ کاش وہ لوگ مدینہ کو چھوڑ کر ریگستان میں چلے گئے ہوتے، وہاں اہل بدو کے درمیان محفوظ جگہ پر پناہ لیے ہوئے مدینہ کی خبریں پوچھتے رہتے کہ جنگ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھا ہے۔

        وَلَـوْ کَانُوْا فِیْکُمْ مَّا قٰــتَلُوْٓا اِلَّا قَلِیْلًا: ’’اور اگر وہ تمہارے درمیان رہتے تو قتال نہ کرتے مگر بہت ہی تھوڑا۔‘‘

        اگر وہ لوگ تمہارے درمیان موجود بھی ہوتے تو کسی نہ کسی بہانے جنگ سے جان چھڑا ہی لیتے اور کبھی کبھار محض دکھانے کے لیے کسی مہم میں با دلِ نخواستہ برائے نام حصہ لے لیتے۔ 

UP
X
<>