May 4, 2024

قرآن کریم > الأحزاب >sorah 33 ayat 21

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا

حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے رسول اﷲ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اُس شخص کیلئے جو اﷲ سے اور یومِ آخرت سے اُمید رکھتا ہو، اور کثرت سے اﷲ کا ذکر کرتا ہو

آیت ۲۱    لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ: ’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول ؐمیں ایک بہترین نمونہ ہے‘‘

        بظاہر ہمارے ہاں اس آیت کی تفہیم و تعلیم بہت عام ہے۔ سیرت کا کوئی سیمینار ہو، میلادکی کوئی محفل ہویا کسی واعظ ِرنگین بیان کا وعظ ہو، اس آیت کی تلاوت لازمی سمجھی جاتی ہے۔ لیکن رسول اللہ کے سیرت وکردار کا نمونہ اپنانے کی جو صورت آج مسلمانوں کے ہاں عموماً دیکھنے میں آتی ہے اس کا تصور بہت محدود نوعیت کا ہے اور جن سنتوں کا تذکرہ عام طو رپر ہمارے ہاں کیا جاتا ہے وہ محض روز مرہ کے معمولات کی سنتیں ہیں، جیسے مسواک کی سنت یا مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دایاں پاؤں اندر رکھنے اور باہر نکلتے ہوئے بایاں پاؤں باہر رکھنے کی سنت۔ یقینا ان سنتوں کو اپنانے کا بھی ہمیں اہتمام کرنا چاہیے اور ہمارے لیے حضور  کی ہر سنت یقینا منبع خیر و برکت ہے۔ لیکن اس آیت کے سیاق و سباق کو مدنظر رکھ کر غور کریں تو یہ نکتہ بہت آسانی سے سمجھ میں آ جائے گا کہ یہاں جس اُسوہ کا ذکر ہوا ہے وہ طاقت کے نشے میں بدمست باطل کے سامنے بے سروسامانی کے عالم میں جان ہتھیلی پر رکھ کر ڈٹ جانے کا اُسوہ ہے۔ اور اُسوۂ رسول  کا یہی وہ پہلو ہے جو آج ہماری نظروں سے اوجھل ہوچکا ہے۔ دراصل اس آیت میں خصوصی طور پر حضور  کے اس کردار کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے جس کا نظارہ چشم ِفلک نے غزوۂ خندق کے مختلف مراحل کے دوران کیا۔ اس دوران اگر کسی مرحلے پر فاقوں سے مجبور صحابہؓ نے بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹوں پر پتھر بندھے ہوئے دکھائے تو حضور  نے بھی اپنی قمیص اٹھا کر اپنا پیٹ دکھایا جہاں دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ اُس وقت اگر صحابہؓ خندق کی کھدائی میں لگے ہوئے تھے تو ان کے درمیان حضور  خود بھی بڑ ے بڑے پتھر اپنے کندھوں پر اُٹھا اُٹھا کر باہر پھینکنے میں مصروف تھے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ کوئی سنگلاخ چٹان صحابہؓ کی ضربوں سے ٹوٹ نہ سکی اور حضور  کو اطلاع دی گئی تو آپؐ نے بنفس ِ نفیس اپنے ہاتھوں سے ضرب لگا کر اسے پاش پاش کیا۔ اس مشکل گھڑی میں ایسا نہیں تھا کہ حضور  کے لیے پر آسائش خیمہ نصب کر دیا گیا ہو، آپؐ اس میں محو استراحت ہوں، خدام ّمورچھل لیے آپؐ کی خدمت کو موجود ہوں اور باقی لوگ خندق کھودنے میں لگے ہوئے ہوں۔

        حضور  کے اُسوہ اور آپؐ کی سنت کو عملی طور پر اپنائے جانے کے معاملے کو سمجھانے کے لیے عام طور پر میں معاشیات کی دو اصطلاحات macro economics اور micro economics کی مثال دیا کرتا ہوں۔ یعنی جس طرح  macro economics کا تعلق بہت بڑی سطح کے معاشی منصوبوں یا کسی ملک کے معاشی نظام کے مجموعی خدوخال سے ہے، اورچھوٹے پیمانے پر معمول کی معاشی سرگرمیوں کے مطالعے کے لیے micro economics کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، اسی طرح اگر ہم macro sunnah اور micro sunnah کی اصطلاحات استعمال کریں اور اس حوالے سے اپنا اور اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ آج ہماری اکثر یت’’مائیکرو سنت‘‘ سے تو خوب واقف ہے، اکثر لوگ روز مرہ معمول کی سنتوں پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، بلکہ بعض اوقات جذبات کی رو میں بہہ کر اس بنا پر دوسروں کے ساتھ جھگڑے بھی مول لیتے ہیں، لیکن ’’میکرو سنت‘‘ کی اہمیت و ضرورت کا کسی کو ادراک ہے اور نہ ہی اس کی تعمیل کی فکر (اِلاَّ مَا شَاءَ اللّٰہ)۔ مثلاً حضور  کی سب سے بڑی (macro) سنت تو یہ ہے کہ وحی کے آغاز یعنی اپنی چالیس سال کی عمر کے بعد آپؐ نے اپنی پوری زندگی میں کوئی ایک لمحہ بھی معاشی جدوجہد کے لیے صرف نہیں کیا اور نہ ہی اپنی زندگی میں آپؐ نے کوئی جائیداد بنائی۔ بعثت سے پہلے آپؐ ایک خوشحال اور کامیاب تاجر تھے، لیکن سورۃ المدثر کی ان آیات کے نزول کے بعد آپؐ کی زندگی یکسر بدل گئی: (یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ  قُمْ فَاَنْذِرْ  وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ) ’’اے چادر اوڑھنے والے! اُٹھیے، اور (لوگوں کو) خبردار کیجیے، اور اپنے رب کی تکبیرکیجیے‘‘۔ اس حکم کی تعمیل میں گویا آپؐ نے اپنی ہر مصروفیت کو ترک کر دیا، ہر قسم کی معاشی جدوجہد سے پہلو تہی اختیار فرمالی، اور اپنی پوری قوت و توانائی، تمام تر اوقات اور تمام تر تگ و دو کا رخ دعوتِ دین، اقامت ِدین اورتکبیر رب کی طرف پھیر دیا۔ یہ وہ ’’میکرو سنت‘‘ ہے جس سے نبی اکرم  کی زندگی کا ایک لمحہ بھی خالی نظر نہیں آتا۔

        آج اس درجے میں نہ سہی مگر اس میکرو سنت کے رنگ کی کچھ نہ کچھ جھلک تو بحیثیت مسلمان ہماری زندگیوں میں نظر آنی چاہیے، اوراس رنگ کے ساتھ ساتھ مائیکرو قسم کی سنتوں کا بھی اہتمام کیا جائے تو وہ یقینا نورٌ علیٰ نور والی کیفیت ہو گی۔ لیکن اگر ہم اپنی ساری توانائیاں صرف چھوٹی چھوٹی سنتوں کے اہتمام میں ہی صرف کرتے رہیں، برش کے بجائے مسواک کا استعمال کرکے سو شہیدوں کے برابر ثواب کی امید بھی رکھیں اور اتباعِ سنت کے اشتہار کے طور پر ہر وقت مسواک اپنی جیب میں بھی لیے پھریں ، لیکن اپنی زندگیوں کا عمومی رخ متعین کرنے میں ’’میکرو سنت‘‘ کا بالکل بھی لحاظ نہ کریں تو ہمیں خود فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہمارا یہ طرزِ عمل اُسوۂ رسول  سے کس قدر مطابقت اور مناسبت رکھتا ہے!

        لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ: ’’(یہ اُسوہ ہے) ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ سے ملاقات اور آخرت کی امید رکھتا ہو‘‘

        وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا: ’’اور کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتا ہو۔‘‘

        یعنی حضور  کا اسوہ صرف اس شخص کے لیے ہے جو ان تین شرائط کو پورا کرے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا متمنی ہو، یعنی اللہ سے محبت کرتا ہو۔ دوسری شرط یہ کہ وہ شخص یومِ آخرت کی بھی امید رکھتا ہو، یعنی بعث بعد الموت پر اس کا یقین ہو۔ اور تیسری شرط یہ کہ وہ اللہ کا ذکر کثرت کے ساتھ کرتا ہو۔ گویا ہر وقت اللہ کو یاد رکھتا ہو۔

        رسول اللہ کے اُسوہ کے حوالے سے ان شرائط کے فلسفے کو سورۃ البقرۃکی آیت: ۲ اور آیت: ۱۸۵ کی روشنی میں سمجھئے۔ سورۃ البقرۃ کی آیت: ۱۸۵ میں قرآن کو ہُدًی لِّلنَّاسِ (تمام نوعِ انسانی کے لیے ہدایت) قرار دیا گیا ہے۔ لیکن آیت: ۲ میں اس ہدایت سے استفادہ کو ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کی شرط سے مشروط کر دیا گیا ہے کہ قرآن سے صرف وہی لوگ ہدایت حاصل کر سکتے ہیں جو تقویٰ کی روش پر کاربند ہیں۔ اس اصول کی روشنی میں آیت زیرمطالعہ کا مفہوم یہ ہے کہ حضور  کا اُسوہ تو اپنی جگہ کامل و اکمل اور منبع ِرشد و ہدایت ہے لیکن اس سے استفادہ صرف وہی لوگ کر سکیں گے جو اِن تین شرائط پر پورا اترتے ہوں۔

         حضور  کے اُسوہ کے ذکر کے بعد آگے آپؐ کے صحابہؓ کے کردار کا ذکر کیاجا رہا ہے۔ یہ گویا وہی ترتیب ہے جو سورۃ الفتح کی آخری آیت میں آئی ہے: (مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ …) ’’محمدؐ اللہ

کے رسولؐ ہیں ، اور وہ لوگ جو آپؐ کے ساتھ ہیں …‘‘ یعنی پہلے حضور  کا ذکر اور پھر اس کے بعد آپؐ کے صحابہ کرام کا۔ 

UP
X
<>